اسلام آباد —
قومی اسمبلی کے نو منتخب اراکین نے پہلی مرتبہ پانچ سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد پارلیمان کے ایوان زیریں میں تبدیلی کے عمل کو جمہوریت اور ملکی استحکام کے لئے خوش آئند قرار دیا تاہم بیشتر کا کہنا تھا کہ ملک کو درپیش ’’گمبھیر‘‘ مسائل کا حل ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بیشتر قانون سازوں کا کہنا تھا توانائی کا بحران، حکومتی امور میں بد انتظامی، بدعنوانی اور دہشدت گردی سب سے بڑے مسائل ہیں جن کا حل اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں۔
انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے بعد میاں نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ آئندہ چند روز میں وفاق میں حکومت بنانے جاری ہے۔ جماعت کے مرکزی رہنما اور رکن پارلیمنٹ خرم دستگیر کہتے ہیں کہ حزب اختلاف سے امید ہے کہ وہ حکومت یا اس کی پالیسیوں کی مخالفت کو صرف پارلیمان کے ایوانوں تک محدود رکھے گی۔
’’حزب اختلاف بے شک ہماری پالیسیوں کی مخالفت کرے لیکن کوشش ہونی چاہیے کہ سیاسی معاملات کو عدلیہ تک نہیں لے جانا چاہیے۔۔۔۔ہم انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کا ایک بیلنس قائم کریں گے اور اگر باہمی احترام اگر ہوگا تو آئینی جو حدود ہیں ان میں مزید بہتری آئے گی جس سے حکومت کو اپنے کام کرنے میں میں آسانی ہوگی۔‘‘
بلوچستان کی پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ ’’(حکومت میں) جو پارٹیاں آئیں ہیں انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم اچھی گورننس دیں گے۔ بدعنوانی کے خلاف سخت اقدامات کریں گے۔ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کے راستے روکیں گے۔ اگر وہی ایجنڈا ہو اور اتنے سارے لوگ ہوں تو اقبال کا شعر ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔‘‘
پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے مراد سعید کہتے ہیں کہ حکومت کو مسائل کے حل کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنا ہوں گے۔ ’’آپ کو یہ پارلیمنٹ خاموش نہیں ملے گی۔ ہر ایشو پر بحث ہوگی۔ ایک ایسی پالیسی بنائیں گے ایک ایسی پالیسی کے لئے آواز اٹھائیں گے جو عوام کے لئے بہتر ہو۔‘‘
مسلم لیگ (ن) کی سائرہ افضل تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ وقت ’’موج میلے کا تو نہیں ہے۔ حکومت کو جتنے بھی چیلنجز ہیں اس کے لئے کام تو کرنا پڑے گا۔‘‘
آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے قانون ساز خسرو بختیار کا حکومت کی ترجیحات کے حوالے سے کہنا تھا کہ نئی اسمبلی کو عوامی مسائل کو فوقیت دینا ہوگی اور ’’حیلے بہانوں‘‘ سے کام نہیں چلے گا۔
’’سیاسی نعرہ بازی کے علاوہ اس اسمبلی کو ایشو بیس پالیسی اپنانا ہوگی اور ٹارگٹ طے کرنا ہوں گے کہ آئندہ پانچ سال میں کیا کرنا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے بحران کے علاوہ ملکی معیشت کو بہتر بنانے اور حکومت کو اپنی آمدن بڑھانے کے ٹیکس کی شرح میں اضافے کے لئے جلد اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان میں اس وقت ملکی مجموعی پیداوار میں ٹیکس کی شرح دنیا کے بیشتر ممالک سے بہت کم ہے۔
حزب اختلاف کی قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جاعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ایوان میں مثبت کردار ادا کرے گی اور مسلم لیگ ن کی طرح حکومتی معاملات پر ان کی جماعت عدالت کا رخ نہیں کرے گی۔
’’ہم نے جمہوریت کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں اور آج اس کا یہ ثمر ہے۔ تو ہم جمہوریت کو مضبوط کریں گے۔ ہم پارلیمنٹ کا رخ کریں گے۔ عوام کا رخ کریں گے۔ ہم کہیں اور نہیں دیکھیں گے۔‘‘
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری انداز میں انتقال اقتدار کو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا جا رہا ہے تاہم مختلف بحرانوں میں گرے عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے نئی حکومت پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔
اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بیشتر قانون سازوں کا کہنا تھا توانائی کا بحران، حکومتی امور میں بد انتظامی، بدعنوانی اور دہشدت گردی سب سے بڑے مسائل ہیں جن کا حل اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں۔
انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے بعد میاں نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ آئندہ چند روز میں وفاق میں حکومت بنانے جاری ہے۔ جماعت کے مرکزی رہنما اور رکن پارلیمنٹ خرم دستگیر کہتے ہیں کہ حزب اختلاف سے امید ہے کہ وہ حکومت یا اس کی پالیسیوں کی مخالفت کو صرف پارلیمان کے ایوانوں تک محدود رکھے گی۔
’’حزب اختلاف بے شک ہماری پالیسیوں کی مخالفت کرے لیکن کوشش ہونی چاہیے کہ سیاسی معاملات کو عدلیہ تک نہیں لے جانا چاہیے۔۔۔۔ہم انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کا ایک بیلنس قائم کریں گے اور اگر باہمی احترام اگر ہوگا تو آئینی جو حدود ہیں ان میں مزید بہتری آئے گی جس سے حکومت کو اپنے کام کرنے میں میں آسانی ہوگی۔‘‘
بلوچستان کی پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ ’’(حکومت میں) جو پارٹیاں آئیں ہیں انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم اچھی گورننس دیں گے۔ بدعنوانی کے خلاف سخت اقدامات کریں گے۔ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کے راستے روکیں گے۔ اگر وہی ایجنڈا ہو اور اتنے سارے لوگ ہوں تو اقبال کا شعر ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔‘‘
پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے مراد سعید کہتے ہیں کہ حکومت کو مسائل کے حل کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنا ہوں گے۔ ’’آپ کو یہ پارلیمنٹ خاموش نہیں ملے گی۔ ہر ایشو پر بحث ہوگی۔ ایک ایسی پالیسی بنائیں گے ایک ایسی پالیسی کے لئے آواز اٹھائیں گے جو عوام کے لئے بہتر ہو۔‘‘
مسلم لیگ (ن) کی سائرہ افضل تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ وقت ’’موج میلے کا تو نہیں ہے۔ حکومت کو جتنے بھی چیلنجز ہیں اس کے لئے کام تو کرنا پڑے گا۔‘‘
آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے قانون ساز خسرو بختیار کا حکومت کی ترجیحات کے حوالے سے کہنا تھا کہ نئی اسمبلی کو عوامی مسائل کو فوقیت دینا ہوگی اور ’’حیلے بہانوں‘‘ سے کام نہیں چلے گا۔
’’سیاسی نعرہ بازی کے علاوہ اس اسمبلی کو ایشو بیس پالیسی اپنانا ہوگی اور ٹارگٹ طے کرنا ہوں گے کہ آئندہ پانچ سال میں کیا کرنا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے بحران کے علاوہ ملکی معیشت کو بہتر بنانے اور حکومت کو اپنی آمدن بڑھانے کے ٹیکس کی شرح میں اضافے کے لئے جلد اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان میں اس وقت ملکی مجموعی پیداوار میں ٹیکس کی شرح دنیا کے بیشتر ممالک سے بہت کم ہے۔
حزب اختلاف کی قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جاعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ایوان میں مثبت کردار ادا کرے گی اور مسلم لیگ ن کی طرح حکومتی معاملات پر ان کی جماعت عدالت کا رخ نہیں کرے گی۔
’’ہم نے جمہوریت کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں اور آج اس کا یہ ثمر ہے۔ تو ہم جمہوریت کو مضبوط کریں گے۔ ہم پارلیمنٹ کا رخ کریں گے۔ عوام کا رخ کریں گے۔ ہم کہیں اور نہیں دیکھیں گے۔‘‘
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری انداز میں انتقال اقتدار کو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا جا رہا ہے تاہم مختلف بحرانوں میں گرے عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے نئی حکومت پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔