خیبرپختونخواہ کے سیکرٹری داخلہ اختر علی شاہ نے بتایا کہ صورتحال پوری طرح سے سکیورٹی اہلکاروں کے قابو میں ہے۔
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کی پشاور سنٹرل جیل میں قیدیوں کے درمیان تصادم کے بعد جیل کی سکیورٹی مزید سخت کردی گئی ہے۔
حکام کے مطابق اتوار کی سہ پہر جیل میں کالعدم شدت پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے دو مختلف گروپوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس میں چند قیدی زخمی ہوگئے۔
خیبرپختونخواہ کے سیکرٹری داخلہ اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جیل میں صورتحال پوری طرح سے انتظامیہ کے قابو میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں جیلوں کی سکیورٹی ہر ممکن حد تک سخت کی گئی ہے اور کسی بھی واقعے سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی اہلکار پوری طرح چوکس ہیں۔
’’جس صورتحال میں ہم رہ رہے ہیں اس میں ہر وقت ہم پوری طرح تیار رہتے ہیں، خفیہ اطلاعات بھی ملتی ہیں تو اس پر کارروائی کی جاتی ہے، ہمارے پچھلے دو تین تجربات ہیں اس حوالے سے ہم نے اپنی تیاری کو مکمل رکھا ہوا ہے، آج بھی حالانکہ کوئی اتنا بڑا واقعہ نہیں تھا لیکن فوری طور پر کارروائی کرکے صورتحال کو قابو کیا گیا۔‘‘
سنٹرل جیل پشاور میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی نشاندہی میں مبینہ طور پر امریکی سی آئی اے کی مدد کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے علاوہ کالعدم شدت پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کئی دہشت گرد بھی قید ہیں جب کہ تحریک نفاذ شریعت محمدی کے رہنما صوفی محمد کو بھی یہیں رکھا گیا ہے۔
گزشتہ جمعرات کو بھی سلامتی کے خدشات اور خفیہ معلومات پر پشاور جیل میں سرچ آپریشن کیا گیا اور وہاں سکیورٹی کی نفری میں اضافہ کیا گیا تھا۔
سیکرٹری داخلہ خیبرپختونخواہ اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ پولیس اور ایلیٹ فورس کے جوانوں کے علاوہ فوجی دستے بھی بغیر وقت ضائع کیے فوری کارروائی کرنے کے چوکس ہیں۔
گزشتہ دو برسوں میں اسی صوبے کی دو مختلف جیلوں پر شدت پسندوں نے حملے کر کے اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو فرار کروایا تھا۔ ان میں دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں ملوث ملزمان کے علاوہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر ناکام قاتلانہ حملے میں ملوث عدنان رشید بھی شامل تھا۔
اسی طرح حالیہ برسوں میں عراق، لیبیا اور افغانستان میں جیلوں پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں کے بعد انٹرپول بھی یہ انتباہ جاری کر چکا ہے کہ حکام ان تمام حملوں میں کسی ممکنہ ربط کی تحقیقات کریں اور دہشت گردی کی کسی بھی بڑی ممکنہ کارروائی کے بارے میں چوکنا رہیں۔
حکام کے مطابق اتوار کی سہ پہر جیل میں کالعدم شدت پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے دو مختلف گروپوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس میں چند قیدی زخمی ہوگئے۔
خیبرپختونخواہ کے سیکرٹری داخلہ اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جیل میں صورتحال پوری طرح سے انتظامیہ کے قابو میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں جیلوں کی سکیورٹی ہر ممکن حد تک سخت کی گئی ہے اور کسی بھی واقعے سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی اہلکار پوری طرح چوکس ہیں۔
’’جس صورتحال میں ہم رہ رہے ہیں اس میں ہر وقت ہم پوری طرح تیار رہتے ہیں، خفیہ اطلاعات بھی ملتی ہیں تو اس پر کارروائی کی جاتی ہے، ہمارے پچھلے دو تین تجربات ہیں اس حوالے سے ہم نے اپنی تیاری کو مکمل رکھا ہوا ہے، آج بھی حالانکہ کوئی اتنا بڑا واقعہ نہیں تھا لیکن فوری طور پر کارروائی کرکے صورتحال کو قابو کیا گیا۔‘‘
سنٹرل جیل پشاور میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی نشاندہی میں مبینہ طور پر امریکی سی آئی اے کی مدد کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے علاوہ کالعدم شدت پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کئی دہشت گرد بھی قید ہیں جب کہ تحریک نفاذ شریعت محمدی کے رہنما صوفی محمد کو بھی یہیں رکھا گیا ہے۔
گزشتہ جمعرات کو بھی سلامتی کے خدشات اور خفیہ معلومات پر پشاور جیل میں سرچ آپریشن کیا گیا اور وہاں سکیورٹی کی نفری میں اضافہ کیا گیا تھا۔
سیکرٹری داخلہ خیبرپختونخواہ اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ پولیس اور ایلیٹ فورس کے جوانوں کے علاوہ فوجی دستے بھی بغیر وقت ضائع کیے فوری کارروائی کرنے کے چوکس ہیں۔
گزشتہ دو برسوں میں اسی صوبے کی دو مختلف جیلوں پر شدت پسندوں نے حملے کر کے اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو فرار کروایا تھا۔ ان میں دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں ملوث ملزمان کے علاوہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر ناکام قاتلانہ حملے میں ملوث عدنان رشید بھی شامل تھا۔
اسی طرح حالیہ برسوں میں عراق، لیبیا اور افغانستان میں جیلوں پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں کے بعد انٹرپول بھی یہ انتباہ جاری کر چکا ہے کہ حکام ان تمام حملوں میں کسی ممکنہ ربط کی تحقیقات کریں اور دہشت گردی کی کسی بھی بڑی ممکنہ کارروائی کے بارے میں چوکنا رہیں۔