پاکستان کی عدالت عظمٰی نے حال ہی میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کی گئی 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف دائر کی گئی درخواست کو ابتدائی سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔
چیف جسٹس ناصرالملک کی قیادت میں تین رکنی بینچ 28 فروری کو درخواست کی سماعت کرے گا۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے یہ درخواست دائر کی گئی ہے جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ فوجی عدالتوں کا قیام آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے۔
ابتدائی سماعت میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ یہ فیصلہ کرے گا کہ کیا یہ درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں۔
پشاور میں فوج کے زیر انتظام چلنے والے اسکول پر طالبان شدت پسندوں کے ایک مہلک حملے کے بعد ملک میں دہشت گردوں کے خلاف مقدمات نمٹانے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔
پاکستان کی پارلیمان نے اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری کے ساتھ ساتھ آرمی آیکٹ میں بھی ترمیم کی منظور دی تھی۔
حکومت کا موقف ہے کہ فوجی عدالتیں دو سال کے عرصے بنائی جا رہی ہیں اور ان میں صرف دہشت گردی میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات چلائیں جائیں گے۔
پاکستانی فوج کے مطابق ملک بھر میں پہلے مرحلے میں نو فوجی عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں جن میں سے تین، تین صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا، دو سندھ اور ایک بلوچستان میں قائم ہو گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ایک باقاعدہ عمل کے بعد ہی ان فوجی عدالتوں میں مقدمات بھیجے جائیں۔ وزیراعظم نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ ملک کو اس وقت غیر معمولی حالات کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔