حالیہ برسوں میں خلیج عدن میں صومالی بحری قزاق دنیا کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں جو یہاں سے گزرنے والے مال بردار بحری جہازوں پر حملے کرتے ہیں اور اکثر کو اغوا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور پھر ان کی رہائی کے بدلے لاکھوں ڈالر تاوان مانگتے ہیں۔خلیج عدن بحر ہند میں یہ خلیج فارس کے تیل کے ذخائر کی بحری راستے کے ذریعے دنیا کے معاشی مراکز تک رسائی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
گذشتہ سال اگست میں ان قزاقوں نے مصر کے ایک مال بردار جہاز کو اغوا کیا تھااوراب اس کی رہائی کے بدلے 21لاکھ امریکی ڈالر تاوان کا مطالبہ کررکھا ہے۔ اس جہاز کے عملے میں گیارہ مصری، چھ بھارتی،ایک سری لنکن جب کہ چار پاکستانی باشندے بھی شامل ہیں۔ مغوی پاکستانیوں میں اس جہاز کے کپتان سید وصی حسن،انجینئر سید عالم چیف آفیسر علی رحمن اور ڈیزل مکینک محمد مزمل شامل ہیں۔
ان میں ایک پاکستانی یرغمالی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اس رقم کی ادائیگی کے لیے بحری جہاز کے مالک نے دس لاکھ ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے جب کہ پانچ لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رقم چند بھارتی تنظیموں نے جمع کی ہے۔
ان مغویان کے اہل خانہ کا کہنا ہے حکومت کی طرف سے انھیں صرف طفل تسلیاں دی گئی ہیں اور اب چونکہ قزاقوں کی طرف سے دی گئی مقررہ معیاد بھی ختم ہونے والی ہے ، ان تمام لوگوں کی پریشانیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔
کیپٹن وصی کی دس سالہ بیٹی لیلیٰ نے تو اس حد تک کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے باپ کی رہائی کے لیے اپنے گردے بیچنے کے لیے تیار ہیں۔ ”گردے بیچ کر جو پیسے ملیں گے اس سے میں اپنے بابا کو واپس لاؤں گی۔“ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس معصوم بچی نے روہانسی ہوکر عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے والد اور دیگر پاکستانیوں کی رہائی کے لیے ان کی مدد کریں۔
وصی حسن اور دیگر مغویان کے اہل خانہ نے عوام سے عطیات حاصل کرنے کے لیے ایک اکاؤنٹ بھی کھولا ہے تاکہ لوگ تاوان کی رقم جمع کرنے کے لیے ان کی مدد کرسکیں۔