پاکستان نے پڑوسی ملک افغانستان میں اقتصادی ترقی کے منصوبوں کے لیے مزید 50 کروڑ ڈالر دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان خود پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے۔
افغانستان کے لیے مالی اعانت فراہم کرنے سے متعلق برسلز میں ہونے والی کانفرنس سے بدھ کو خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اعلان کیا کہ ان کا ملک مزید تین ہزار افغان طلبا کو اپنے ہاں طب، انجینیئرنگ، بنکاری اور دیگر شعبوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے وظائف دے گا جس کا مقصد افغانستان میں اداروں کی تعمیر میں مدد فراہم کرنا ہے۔
دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ اس سے قبل بھی پاکستان افغانستان کے لیے 50 کروڑ ڈالر کا امدادی پیکج دے چکا ہے جس کے تحت بنیادی ڈھانچے، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں جاری منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچنے والے ہیں جب کہ تین ہزار افغان طلبا پہلے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے وظائف حاصل کر چکے ہیں۔
برسلز کانفرنس میں سرتاج عزیز نے ایک بار پھر افغانستان میں دیرپا امن کے لیے سیاسی مذاکرات کو ہی قابل عمل راستہ قرار دیا۔ انھوں نے افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کو سراہتے ہوئے پاکستان کی طرف سے افغانستان کے مصالحتی عمل کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
یہ کانفرنس افغان قیادت اور یورپی یونین کی مشترکہ میزبانی میں منعقد کی گئی ہے جس میں 70 سے زائد ممالک اور تنظیموں کے نمائندے شریک ہیں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپنے ملک کے لیے مستحکم بین الاقوامی معاونت کی درخواست کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت ملک میں غربت کے خاتمے کی کوششوں پر توجہ دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ "ہم غربت میں کمی اور اس کے خاتمے پر مسلسل توجہ مرکوز رکھیں گے۔"
صدر غنی کے مطابق افغانستان کی 39 فیصد آبادی اب بھی 1.35 ڈالر روزانہ کی آمدن سے بھی کم پر گزارہ کر رہی ہے۔
افغانستان کے امور پر نظر رکھنے والے اور دفاعی امور کے تجزیہ کار سعد محمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کو معاشی استحکام کے لیے خطیر امداد کی ضرورت ہے اور افغان قیادت کو ملک میں بہت سے چیلنجز بھی درپیش ہیں۔