پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف پانی سے متعلق عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے منگل کو تاجکستان جائیں گے۔
انسانی صحت، بہبود اور ماحول کے تحفظ کے لیے پانی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، موسمیاتی تبدیلی، آبادی میں اضافے اور آبی ذخائر کے بے دریغ استعمال سے دنیا بھر میں تازہ پانی کے ذرائع میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے، جس پر عالمی سطح پر تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔
انہی خدشات اور میٹھے پانی کے تیزی سے کم ہوتے ذخائر کے باعث پیدا ہونے والے خطرے کے پیش نظر 2003ء میں اقوامِ متحدہ نے 2005ء سے 2015ء کی دہائی کو پانی کی دہائی قرار دیا تھا۔
اس اقدام کا مقصد آبی ذرائع کی حفاظت، ان کے بہتر انتظام اور پانی سے متعلق ملکوں کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوششوں کو فروغ دینا تھا۔
اس دہائی کے دوران کیے گئے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے تاجکستان میں 9 سے 11 جون تک ایک اعلیٰ سطحی عالمی کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے جس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیرِ اعظم نواز شریف کریں گے۔
کانفرنس میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت اہم عالمی رہنماؤں اور تنظیموں کی شرکت متوقع ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث ملک میں آبی وسائل کی فی کس دستیابی میں کمی واقع ہوئی ہے۔
پانی اور توانائی سے متعلق امور کے ماہر ارشد عباسی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سیلاب اور خشک سالی دونوں حالتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے غیر متنازع جگہوں پر ڈیم بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پانی کو ذخیرہ کیا جاسکے۔
’’اس وقت پاکستان کو چھوڑ کر پورا علاقہ گرمی کی لہر کی لپیٹ میں ہے۔ ابھی بھارت میں گرمی سے 2,600 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ وہاں پانی کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اگر پاکستان میں گرمی کی لہر آ گئی تو تھر کا علاقہ پہلے ہی بحران کا شکار ہے۔ پاکستان میں صرف 17 دن کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ 1960ء کے بعد سے ہم کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا سکے، تو یقیناً یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پانی کا بہتر انتظام اور نئے ذخائر کی تعمیر ملکی ترجیحات میں بہت نیچے ہے جس کا اندازہ اس سال پیش کیے گئے ملکی بجٹ سے ہوتا ہے جس میں آبی ذخائر کی ترقی کے لیے بہت کم رقم مختص کی گئی ہے۔
آبی ذرائع کے بہتر انتظام سے بجلی کی پیداوار، غذائی تحفظ، سیلاب سے بچاؤ اور پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافے جیسے دور رس اور پائیدار تنائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں ابھی مربوط کوششیں نہیں کی گئیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ تاجکستان میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان پانی کی دستیابی سے متعلق اپنے تحفظات کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے بھی شرکاء کو آگاہ کرے گا۔