انسداد پولیو کی نئی مہم کے آغاز پر حکومت نے آئندہ دو سال میں ملک سے پولیو کے خاتمے کی امید ظاہر کی ہے۔
پولیو کے خاتمے کے لیے وزیراعظم کی معاون خصوصی شہناز وزیر علی نے کہا کہ انسداد پولیو کے قومی منصوبے کے تحت ضلع اور یونین کونسل کی سطح پر بچوں کو جسمانی طور پر معذور کر دینی والی بیماری پولیو کی نگرانی کا نظام بہتر بنایا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ نظام کی بہتری انسداد پولیو مہم کو موثر بنانے میں معاون ثابت ہو گی۔ ’’دسمبر 2014 ء تک ہمیں امید ہے کہ بہت ہی کم کیسز رہ جانے چاہیئیں اور اس کے ایک ڈیڑھ سال تک امید ہے کہ بالکل ہی خاتمہ ہونا چاہیے۔‘‘
انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ مہم میں کمزوریوں نے اس بیماری کے مکمل خاتمے کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ شہناز وزیر علی نے کہا کہ پولیو سے بچاؤ کے لیے فراہم کی جانے والی ویکسین بالکل صحیح ہے لیکن اس دوا کو مخصوص درجہ حرارت میں رکھنا ضروری ہے البتہ پولیو مہم کے دوران ان ہدایات کو نظر انداز کرنے کے باعث پولیو ویکسین کی افادیت ختم ہو جاتی ہے۔
’’ یقیناً خامیاں ہیں ٹیم کئی جگہوں پر صحیح طریقے سے کام نہیں کر رہیں کئی جگہ دس دس بارہ سال کے بچوں کے ہاتھ میں یہ کام دے دیا ہے۔ اس چیز پر کڑی نظر رکھی گئی ہے اور بہت سخت فیصلے بھی صوبوں کی سطح پر کئے گئے ہیں۔‘‘
شہناز وزیر علی نے کہا کہ پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف بسنے والے خاندانوں کی نقل و حمل بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کی ایک اہم وجہ ہے۔ ان کے بقول شورش زدہ علاقوں اور ان شمال مغربی علاقوں میں جہاں محکمہ صحت کے عملے کی رسائی ممکن نہیں ہے وہاں فوج کے تعاون سے انسداد پولیو مہم چلانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
وزیراعظم کی معاون خصوصی نے بلوچستان میں بھی بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم کو مزید موثر بنانے پر زور دیا۔
گزشتہ سال ملک بھر میں پولیو وائرس کے 144 کیسز سامنے آئے تھے لیکن رواں اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور اب تک 174 نئے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں سب سے زیادہ 68 کیسز بلوچستان میں سامنے آئے ہیں ۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جمعہ کو اسلام آباد میں پولیو کے خاتمے کے لیے تین روزہ قومی مہم کے افتتاح کے موقع پر عوامی نمائندوں اور مذہبی رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ پولیو کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں حکومت کا ساتھ دیں۔