انسداد پولیو کی کوششوں کی نگرانی کے لیے پاکستان میں قائم پارلیمان کی خصوصی’ٹاسک فورس‘ کی سربراہ ڈاکٹرعذرا فضل پیچو ہو نے اعتراف کیا ہے کہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی قومی مہم میں نچلی سطح پر پائی جانے والی خامیوں سے مطلوبہ مقاصد کے حصول میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں اُنھوں نے بتایا کہ انسان کو اپاہج بنا دینے والے پولیو وائرس کے اس سال اب تک 157 نئے مریض سامنے آ چکے ہیں جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد 144 تھی۔ ٹاسک فورس کی چیئر پرسن کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پولیو کی شرح میں پاکستان کے کیسز 61 فیصد ہیں، جو تشویش کا باعث ہے۔
’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ بیرونی دنیا نے پولیو پر قابو پا لیا ہے لیکن ہم اس پر اب تک پوری طرح قابو نہیں پا سکے ہیں۔ یہ نئے کیسز اس لیے ہو رہے ہیں کہ گراس روٹ لیول (نچلی سطح) پر ویکسین (پولیو کے قطرے) دینے والے ذمہ داری سے کام نہیں کرتے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری محسوس کر لیں اور یونین کونسل کی سطح پرمہم باقاعدگی سے چلائی جائے تو95 فیصد بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جا سکیں گے۔‘‘
ڈاکٹر پیچو ہو کے بقول پولیو کیسز کی شرح کو کم کرنے کی کوششوں کی نگرانی کے لیے’نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان‘ کے تحت ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس اورصوبائی سطح پر وزرائے اعلٰی کے دفاتر میں قائم خصوصی سیل تندہی سے کوششیں کر رہے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یعنی فاٹا، اور بلوچستان میں انسداد پولیو کی مہم کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔
’’فاٹا میں تو سمجھ آتا ہے کہ فاٹا کا بہت سارا حصہ ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے، وہاں دہشت گرد ہیں اور وہاں ویکسین پلانے والوں کا جانا بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ سب کو جان عزیز ہوتی ہے اور وہ وہاں نہیں جا سکتے لیکن بلوچستان ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے کیونکہ یہاں کوئٹہ بلاک میں سب سے زیادہ کیسز نظر آ رہے ہیں اور ان کیسز کا پھیلاؤ پورے ملک میں ہو سکتا ہے۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال اب تک بلوچستان میں پولیو کے 62 جبکہ فاٹا میں 47 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔
پارلیمانی ٹاسک فورس کی چیئرپرسن نے بتایا کہ پولیو پر قابو پانے کے لیے اراکین پارلیمان کو بھی اعتماد میں لیا جا رہا ہے تاکہ وہ اس مہم میں اپنے اضلاع میں زیادہ سے زیادہ شرکت کرسکیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پولیو کے خلاف مہم کے لیے حکومت پاکستان کے پاس مالی وسائل کی کمی نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے دنیا کی مختلف تنظیموں کی طرف سے امداد فراہم کی جارہی۔ مزید برآں ان کا کہنا تھ کہ انسداد پولیو کی دوا عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) درآمد کرتا ہے اس لیے اس کے غیر معیاری ہونے کے بارے میں شک شبے کی گنجائش نہیں۔
’’مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ (دوا کی افادیت کو برقرار رکھنے کے لیے) اس کو ایک مخصوص درجہ حرارت پررکھا جاتا ہے اور ہم نے ویکسین پلانے والوں کو ’آئس باکس‘ یا برف خانے دیے ہوئے ہیں مگر وہ انھیں گھر میں رکھ لیتے ہیں اور پلاسٹک کی تھیلوں میں ویکسین لے جاتے ہیں۔‘‘
ڈاکڑ پیچوہو کہتی ہیں کہ پاکستان میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے پولیو کے قطروں کو اگر مخصوص درجہ حرارت محفوظ نہ رکھا جائے تو ویکسین خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اس لیے مہم کے دوران افسران سمیت قطرے پلانے والوں کی خصوصی نگرانی کی جا رہی ہے اور انسداد پولیو کی مہم کے دوران کسی بھی سطح پر ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی برتنے والوں کی فوری معطلی کی احکامات دیے گئے ہیں۔
دنیا بھرمیں اس سال اب تک پولیو کے 532 کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں بھارت میں ایک، نائیجریا میں 42 اور افغانستان میں اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 53 ہے۔ گزشتہ سال پولیو کیسز کی عالمی تعداد 975 تھی۔