منگل کی صبح بلدیہ ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن اور لانڈھی میں ٹیموں پر فائرنگ کی گئی، سندھ کے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد نے ان حملوں کے بعد صوبے بھر میں انسداد پولیو کی مہم روکنے کے احکامات جاری کر دیئے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی اور شمال مغربی شہر پشاور میں منگل کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملے میں پانچ خواتین رضا کار ہلاک ہو گئیں۔
کراچی کے علاقوں بلدیہ ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن اور لانڈھی میں منگل کی صبح ٹیموں پر فائرنگ کی گئی جس میں چار خواتین اہلکار ہلاک ہوئیں جس کے بعد سندھ کے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد نے ان حملوں کے بعد صوبے بھر میں انسداد پولیو کی مہم روکنے کے احکامات جاری کر دیئے۔
اُدھر پشاور کے علاقے ڈاگ میں بھی منگل کو موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے پولیو کے قطرے پلانے والی ایک خاتون رضا کار کو گولیاں مار کے شدید زخمی کر دیا، جسے فوری طور پر لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نا لا کر دم توڑ گئیں۔
پیر کو بھی کراچی کے گڈاب ٹاؤن کے علاقے میں انسداد پولیو مہم کے ایک رضاکار عمر فاروق کو نا معلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ اس طرح دو روز میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملوں میں ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی تعداد چھ ہو گئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں عہدیداروں نے انسداد پولیو کی ٹیموں پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جسمانی معذوری کا سبب بننے والی اس بیماری سے بچاؤ کی مہم میں شامل افراد کی حفاظت کے لیے ضروری اضافی اقدامات کیے جانے چاہیئں۔
پاکستان میں گزشتہ سال پولیو وائرس سے 198 بچے متاثر ہوئے تھے، مگر رواں سال اب تک 56 بچوں میں اس کی تصدیق ہوئی ہے اور حکام اسے ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
لیکن ملک کے قبائلی علاقوں جنوبی اور شمالی وزیرستان میں پولیو کی سرکاری مہم پر طالبان شدت پسندوں کا پابندی لگانے کے اعلان کے علاوہ کراچی اور ملک کے دیگر بعض شہروں میں انسداد پولیو کی ٹیموں پر حملوں سے اس بیماری کے خلاف چلائی جانے والی سرکاری مہم کو بعض علاقوں میں متاثر کیا ہے۔
رواں سال جولائی میں کراچی میں دو الگ الگ حملوں میں ڈبلیو ایچ او سے منسلک ایک پاکستانی ڈاکٹر ہلاک جبکہ گھانا سے تعلق رکھنے والی تنظیم کا ایک ڈاکٹر اور اُن کا ڈرائیور زخمی ہو گئے تھے۔
کراچی کے علاقوں بلدیہ ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن اور لانڈھی میں منگل کی صبح ٹیموں پر فائرنگ کی گئی جس میں چار خواتین اہلکار ہلاک ہوئیں جس کے بعد سندھ کے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد نے ان حملوں کے بعد صوبے بھر میں انسداد پولیو کی مہم روکنے کے احکامات جاری کر دیئے۔
اُدھر پشاور کے علاقے ڈاگ میں بھی منگل کو موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے پولیو کے قطرے پلانے والی ایک خاتون رضا کار کو گولیاں مار کے شدید زخمی کر دیا، جسے فوری طور پر لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نا لا کر دم توڑ گئیں۔
پیر کو بھی کراچی کے گڈاب ٹاؤن کے علاقے میں انسداد پولیو مہم کے ایک رضاکار عمر فاروق کو نا معلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ اس طرح دو روز میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملوں میں ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی تعداد چھ ہو گئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں عہدیداروں نے انسداد پولیو کی ٹیموں پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جسمانی معذوری کا سبب بننے والی اس بیماری سے بچاؤ کی مہم میں شامل افراد کی حفاظت کے لیے ضروری اضافی اقدامات کیے جانے چاہیئں۔
لیکن ملک کے قبائلی علاقوں جنوبی اور شمالی وزیرستان میں پولیو کی سرکاری مہم پر طالبان شدت پسندوں کا پابندی لگانے کے اعلان کے علاوہ کراچی اور ملک کے دیگر بعض شہروں میں انسداد پولیو کی ٹیموں پر حملوں سے اس بیماری کے خلاف چلائی جانے والی سرکاری مہم کو بعض علاقوں میں متاثر کیا ہے۔
رواں سال جولائی میں کراچی میں دو الگ الگ حملوں میں ڈبلیو ایچ او سے منسلک ایک پاکستانی ڈاکٹر ہلاک جبکہ گھانا سے تعلق رکھنے والی تنظیم کا ایک ڈاکٹر اور اُن کا ڈرائیور زخمی ہو گئے تھے۔