نگراں وزیراعظم کھوسو نے پولیو مہم کے دوران جان سے جانے والے رضاکاروں کو قومی ہیرو قرار دیتے ہوئے کہا کہ بڑی سے بڑی رکاوٹ کی پرواہ کیے بغیر پاکستان کو پولیو سے پاک ملک بنانے کا مقصد ضرور پورا کیا جائے گا۔
اسلام آباد —
پاکستان کے نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے انسداد پولیو کی ٹیموں پر ہلاکت خیز حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی کارروائیوں سے ملک سے پولیو کے خاتمے کے لیے حکومت اور عوام کے عزم کو کمزور نہیں کیا جاسکتا۔
منگل کو شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں انسداد پولیو ٹیم کی دو خواتین رضاکاروں کو نامعلوم حملہ آوروں نے اس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا جب وہ پشاور کے مضافاتی علاقے میں بچوں کو اس موذی مرض سے بچاؤ کے قطرے پلانے میں مصروف تھیں۔
ان میں سے ایک خاتون رضاکار موقع پر دم توڑ گئی جب کہ دوسری کو شدید زخم آئے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں گزشتہ برس کے اواخر سے پولیو سے بچاؤ کی مہم کے دوران رضاکاروں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات رونما ہوتے آرہے ہیں جس سے یہ مہم متعدد بار معطل بھی ہوچکی ہے۔
بدھ کو ایک سرکاری بیان میں جناب کھوسو نے پولیو مہم کے دوران جان سے جانے والے رضاکاروں کو قومی ہیرو قرار دیتے ہوئے کہا کہ بڑی سے بڑی رکاوٹ کی پرواہ کیے بغیر پاکستان کو پولیو سے پاک ملک بنانے کا مقصد ضرور پورا کیا جائے گا۔
نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے سب میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور ان کے بقول عوامی اور سیاسی حمایت کے ہوتے ہوئے چند مٹھی بھر گمراہ عناصر کو اس میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔
افغانستان اور نائیجیریا کے علاوہ پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کردینے والے موذی مرض پولیو کے وائرس پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
بیان میں وزیراعظم نے اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے مذہبی رہنماؤں، مقامی خطبا، ارکان پارلیمان اور ذرائع ابلاغ کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان میں پولیو سے بچاؤ کی سرکاری مہم کا باقاعدہ آغاز 1994ء میں ہوا جس کے بعد ہر سال اس موذی وائرس سے بچاؤ کے لیے پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو حفاظتی قطرے پلائے جاتے ہیں۔
گزشتہ برسوں کی نسبت پاکستان میں پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد میں خاطر خواہ کمی بھی دیکھنے میں آئی لیکن ماہرین انسداد پولیو کی ٹیموں پر ہونے والے ہلاکت خیز حملوں کو ملک سے اس وائرس کے مکمل خاتمے کی کوششوں کے لیے مضر قرار دیتے ہیں۔
حکومت نے انسداد پولیو کی مہم کے دوران رضاکاروں کے ہمراہ سکیورٹی اہلکار بھی معمور کرنے کا اعلان کررکھا ہے لیکن تشدد کے ان واقعات میں کئی پولیس اہلکار بھی شدت پسندوں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں ۔
ایسے واقعات کے باعث اس مہم میں معاونت فراہم کرنے والے متعدد بین الاقوامی امدادی ادارے بھی کئی بار اپنی سرگرمیاں عارضی طور پر معطل کرچکے ہیں۔
رواں سال پاکستان میں پولیو کے چھ کیس رجسٹر ہوچکے ہیں۔
منگل کو شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں انسداد پولیو ٹیم کی دو خواتین رضاکاروں کو نامعلوم حملہ آوروں نے اس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا جب وہ پشاور کے مضافاتی علاقے میں بچوں کو اس موذی مرض سے بچاؤ کے قطرے پلانے میں مصروف تھیں۔
ان میں سے ایک خاتون رضاکار موقع پر دم توڑ گئی جب کہ دوسری کو شدید زخم آئے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں گزشتہ برس کے اواخر سے پولیو سے بچاؤ کی مہم کے دوران رضاکاروں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات رونما ہوتے آرہے ہیں جس سے یہ مہم متعدد بار معطل بھی ہوچکی ہے۔
بدھ کو ایک سرکاری بیان میں جناب کھوسو نے پولیو مہم کے دوران جان سے جانے والے رضاکاروں کو قومی ہیرو قرار دیتے ہوئے کہا کہ بڑی سے بڑی رکاوٹ کی پرواہ کیے بغیر پاکستان کو پولیو سے پاک ملک بنانے کا مقصد ضرور پورا کیا جائے گا۔
نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے سب میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور ان کے بقول عوامی اور سیاسی حمایت کے ہوتے ہوئے چند مٹھی بھر گمراہ عناصر کو اس میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔
افغانستان اور نائیجیریا کے علاوہ پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کردینے والے موذی مرض پولیو کے وائرس پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
بیان میں وزیراعظم نے اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے مذہبی رہنماؤں، مقامی خطبا، ارکان پارلیمان اور ذرائع ابلاغ کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان میں پولیو سے بچاؤ کی سرکاری مہم کا باقاعدہ آغاز 1994ء میں ہوا جس کے بعد ہر سال اس موذی وائرس سے بچاؤ کے لیے پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو حفاظتی قطرے پلائے جاتے ہیں۔
گزشتہ برسوں کی نسبت پاکستان میں پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد میں خاطر خواہ کمی بھی دیکھنے میں آئی لیکن ماہرین انسداد پولیو کی ٹیموں پر ہونے والے ہلاکت خیز حملوں کو ملک سے اس وائرس کے مکمل خاتمے کی کوششوں کے لیے مضر قرار دیتے ہیں۔
حکومت نے انسداد پولیو کی مہم کے دوران رضاکاروں کے ہمراہ سکیورٹی اہلکار بھی معمور کرنے کا اعلان کررکھا ہے لیکن تشدد کے ان واقعات میں کئی پولیس اہلکار بھی شدت پسندوں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں ۔
ایسے واقعات کے باعث اس مہم میں معاونت فراہم کرنے والے متعدد بین الاقوامی امدادی ادارے بھی کئی بار اپنی سرگرمیاں عارضی طور پر معطل کرچکے ہیں۔
رواں سال پاکستان میں پولیو کے چھ کیس رجسٹر ہوچکے ہیں۔