انسداد پولیو پر بین الاقوامی مشاورتی گروپ نے حکومت سے کہا کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ٹیمیں گھر گھر جا کر قطرے پلائیں اور گھروں یا اسکولوں میں بچوں کی غیر موجودگی کی صورت میں بھی کسی نا کسی طرح انہیں ویکسین دی جائے۔
اسلام آباد —
انسداد پولیو مہم سے متعلق عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے سے انکار سے کہیں زیادہ بڑا مسئلہ انسداد پولیو کی ٹمیوں کا گھروں میں نا جانا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یعنی یونیسف کے اعداد و شمار کے مطابق نومبر کی انسداد پولیو مہم میں تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار بچوں کو قطرے نہیں پلائے جا سکے جبکہ ویکسین سے انکار کی وجہ سے ایسے بچوں کی تعداد صرف 38 ہزار ہے۔
انسداد پولیو سے متعلق یونیسف کے ایک اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر شمشیر علی خان کا جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ سرکاری اہلکاروں اور رضاکاروں ہر مشتمل یہ ٹیمیں کی جوابدہی نا ہونا غیر فعال کارکردگی کی ایک وجہ ہے۔
’’ہر پانچ یا چھ ٹیموں پر ایک سپروائزر ہوتا ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ دن میں کم از کم ایک مرتبہ ہر ٹیم کو دیکھے اور ریکارڈ کو چیک کرے مگر بدقسمتی سے وہاں پر نقص ہے جس کی وجہ سے ہم سے بچے رہ جاتے ہیں۔‘‘
یونیسف کے مطابق پورے ملک میں پولیو کے وائرس سے بچاؤ کے قطرے سے انکار کی شرح صرف اعشاریہ ایک چار فیصد ہے جو کہ اس وائرس سے متاثرہ دوسرے دو ممالک افغانستان اور نائجیریا سے بھی کم ہے۔
محکمہ صحت کے ایک سنئیرعہدیدار کا کہنا تھا کہ انسداد پولیو پر بین الاقوامی مشاورتی گروپ نے اسلام آباد میں اپنے حالیہ اجلاس میں حکومت پاکستان سے کہا کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ٹیمیں گھر گھر جا کر قطرے پلائیں اور گھروں یا اسکولوں میں بچوں کی غیر موجودگی کی صورت میں بھی کسی نا کسی طرح انہیں ویکسین دی جائے۔
گزشتہ سال رپورٹ ہونے والے 83 کیسز میں سے 70 کا تعلق قبائلی علاقوں اور ان سے ملحقہ صوبہ خیبرپختوانخواہ سے تھا تاہم عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس دوران مجموعی طور پر پولیو سے متاثرہ اضلاع کی تعداد 28 سے کم ہوکر 21 تک رہ گئی ہے۔
یونیسف کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ انسداد پولیو کی مہم کو کامیاب اور موثر بنانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کو اس کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے مگر بہتری بلدیاتی نظام کے آنے سے ہی ممکن ہے۔
’’یونین کونسل کی سطح پر کمیٹیوں کو بحال کرنا ہوگا اور میڈیکل آفیسر کی بجائے یو سی ناظم کو ان کا سربراہ بنائیں۔ کیونکہ جب ناظم صاحب آجائیں گے تھانے دار صاحب سیکورٹی سے متعلق سپورٹ دیں گے اور آپ کے پٹواری اور تحصیلدار بھی اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔ تو کمپوزیشن بہتر ہو جائے گی۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق شدت پسندوں کی کارروائیوں اور دھمکیوں کی وجہ سے قبائلی علاقوں تک رسائی نا ہونے کی وجہ سے وہاں تقریباً دو لاکھ بچے انسداد پولیو ویکسین سے محروم رہ جاتے ہیں۔
انسدادا پولیو کی ٹیموں پر شدت پسندوں کے حملوں کی وجہ سے اب تک 20 سے زائد فراد مارے جا چکے ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یعنی یونیسف کے اعداد و شمار کے مطابق نومبر کی انسداد پولیو مہم میں تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار بچوں کو قطرے نہیں پلائے جا سکے جبکہ ویکسین سے انکار کی وجہ سے ایسے بچوں کی تعداد صرف 38 ہزار ہے۔
انسداد پولیو سے متعلق یونیسف کے ایک اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر شمشیر علی خان کا جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ سرکاری اہلکاروں اور رضاکاروں ہر مشتمل یہ ٹیمیں کی جوابدہی نا ہونا غیر فعال کارکردگی کی ایک وجہ ہے۔
’’ہر پانچ یا چھ ٹیموں پر ایک سپروائزر ہوتا ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ دن میں کم از کم ایک مرتبہ ہر ٹیم کو دیکھے اور ریکارڈ کو چیک کرے مگر بدقسمتی سے وہاں پر نقص ہے جس کی وجہ سے ہم سے بچے رہ جاتے ہیں۔‘‘
یونیسف کے مطابق پورے ملک میں پولیو کے وائرس سے بچاؤ کے قطرے سے انکار کی شرح صرف اعشاریہ ایک چار فیصد ہے جو کہ اس وائرس سے متاثرہ دوسرے دو ممالک افغانستان اور نائجیریا سے بھی کم ہے۔
محکمہ صحت کے ایک سنئیرعہدیدار کا کہنا تھا کہ انسداد پولیو پر بین الاقوامی مشاورتی گروپ نے اسلام آباد میں اپنے حالیہ اجلاس میں حکومت پاکستان سے کہا کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ٹیمیں گھر گھر جا کر قطرے پلائیں اور گھروں یا اسکولوں میں بچوں کی غیر موجودگی کی صورت میں بھی کسی نا کسی طرح انہیں ویکسین دی جائے۔
گزشتہ سال رپورٹ ہونے والے 83 کیسز میں سے 70 کا تعلق قبائلی علاقوں اور ان سے ملحقہ صوبہ خیبرپختوانخواہ سے تھا تاہم عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس دوران مجموعی طور پر پولیو سے متاثرہ اضلاع کی تعداد 28 سے کم ہوکر 21 تک رہ گئی ہے۔
یونیسف کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ انسداد پولیو کی مہم کو کامیاب اور موثر بنانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کو اس کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے مگر بہتری بلدیاتی نظام کے آنے سے ہی ممکن ہے۔
’’یونین کونسل کی سطح پر کمیٹیوں کو بحال کرنا ہوگا اور میڈیکل آفیسر کی بجائے یو سی ناظم کو ان کا سربراہ بنائیں۔ کیونکہ جب ناظم صاحب آجائیں گے تھانے دار صاحب سیکورٹی سے متعلق سپورٹ دیں گے اور آپ کے پٹواری اور تحصیلدار بھی اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔ تو کمپوزیشن بہتر ہو جائے گی۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق شدت پسندوں کی کارروائیوں اور دھمکیوں کی وجہ سے قبائلی علاقوں تک رسائی نا ہونے کی وجہ سے وہاں تقریباً دو لاکھ بچے انسداد پولیو ویکسین سے محروم رہ جاتے ہیں۔
انسدادا پولیو کی ٹیموں پر شدت پسندوں کے حملوں کی وجہ سے اب تک 20 سے زائد فراد مارے جا چکے ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔