مبصرین نے پاکستان میں حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کی جانب سے وفاقی کابینہ میں کمی کے فیصلے کو ملک میں مثبت تبدیلیوں کا آغاز قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ فیصلوں پر عمل درآمد سے جہاں پیپلزپارٹی عوام میں کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکتی ہے وہیں ناانصافیوں کے خلاف عرب دنیا میں اٹھنے والی تحریکیں بھی پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جائیں گی ۔
فروری دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی ف کے ساتھ صوبوں اور وفاق میں مخلوط حکومت قائم کی اور 31 مارچ 2008 کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 24 رکنی وفاقی کابینہ سے حلف لیا۔ لیکن12 مئی دو ہزار آٹھ کو مسلم لیگ ن وفاقی کابینہ سے الگ ہو گئی۔ 3 نومبر 2008 کو اس کابینہ میں توسیع کر دی گئی اور صدر زرداری نے چالیس نئے وزراء سے حلف لیا۔ یوں وفاقی کابینہ میں شامل وزراء کی تعداد 55 تک جا پہنچی جن میں 35 وفاقی وزراء، 18 وزرائے مملکت اور دو مشیر شامل تھے ۔
14 دسمبردو ہزار دس کو جے یو آئی بھی وفاق سے الگ ہو گئی اور چار وزارتیں چھوڑ دیں۔ جے یو آئی کی علیحدگی کے تقریباً چودہ دن بعد متحدہ بھی وفاق سے الگ ہوگئی اور اس کے دو وزراء مستعفی ہو گئے۔ اس عرصے کے دوران چار وزراء اے این پی کے محمد اعظم خان ہوتی، پیپلزپارٹی کے رضا ربانی، شیری رحمن اور عبدالقیوم جتوئی نے بھی اپنی وزارتوں سے استعفیٰ دیا ۔
جے یو آئی اور متحدہ قومی موومنٹ کے وفاق سے علیحدگی کے بعد سامنے آنے والے منظر نامے میں حکمران جماعت پی پی پی کے حوالے سے یہ کہا جانے لگا کہ وہ سادہ اکثریت کھو بیٹھی ہے اور ملک میں انتخابات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ ن، جے یو آئی اور متحدہ قومی موومنٹ نے صرف وفاقی کابینہ سے علیحدگی اختیار کی تاہم صوبوں میں پیپلزپارٹی کے ساتھ ان کا اتحاد برقرار رہا اوریہی وجہ ہے کہ پی پی پی کی حکومت آج بھی قائم ہے ۔
یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ تمام تر دباؤ اوربے یقینی کی صورتحال کے باوجود پی پی حکومت کے ابتدائی تین سالوں میں جہاں عدلیہ کی بحالی ہوئی وہیں اٹھارہویں ترمیم پاس کی گئی، سوات آپریشن کے متاثرین کا معاملہ حل کیا گیا، گلگت بلتستان میں سیاسی اصلاحات متعارف کرانا، بلوچستان کے لئے آغاز حقوق بلوچستان پیکج کا اعلان، غریب خواتین کی مدد کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغازاور دیگربہت سارے کارنامے انجام دیئے گئے جو شاید مسائل کے انبار کے سامنے اپنی جگہ بنانے میں کچھ زیادہ کامیاب نہ ہو سکے اور ایک عام آدمی کے مسائل جن میں مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور لاقانونیت دن بدن بڑھتے گئے ۔
گزشتہ ماہ جنوری کے وسط میں جب عرب دنیا میں ان ہی مسائل پر عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہو ا تو مبصرین اور عالمی برداری یہ کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر رہی تھی کہ بہت جلد اس کی لہر پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔ یہاں تک کہ امریکی نائب صدر جوبائیڈن بھی بول اٹھے کہ تیونس،یمن اورمصر میں لوگ اپنے حقوق سے محروم تھے اور پاکستان میں بھی حالات عرب ممالک سے کچھ مختلف نہیں ہیں اور بہت جلد پاکستان میں بھی خطرناک صورتحال سامنے آ سکتی ہے ۔
اگر پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اکثر ایسے حالات میں فوج کی مداخلت بھی دیکھی گئی ہے تاہم اس مرتبہ حالات میں بڑی تبدیلی یہ نظر آئی کہ نہ صرف فوج بلکہ سیاسی قوتیں بھی موجودہ حکومت کی مدت پوری کرنے کے حق میں نظر آئیں۔ پیپلزپارٹی نے بھی دور اندیشی کا مظاہرہ کیا اور جہاں سیاسی قوتوں سے بات چیت جاری رکھی وہیں وہ فوجی قیادت کو بھی اعتماد میں لیتی رہی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمران جماعت نے بھی جو بائیڈن اور دیگرحلقوں کی جانب سے خدشات کا سنجیدگی سے نوٹس لیا اور اس بات کو بھانپ لیا کہ اگر اب بھی معاشی لحاظ سے تباہ حال ملک سے وزراء کی فوج کا بوجھ کم نہ کیا اور اصلاحات نہ کی گئیں تو بہت دیر ہو سکتی ہے ۔
جمعہ کے روز پی پی پی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی کابینہ کو توڑنے کا اختیار وزیر اعظم کو دے دیا گیا اور اب جتنی کم ممکن ہو سکا نئی کابینہ تشکیل دی جائے گی ۔تجزیہ کاروں کے مطابق یہ انتہائی خوش آئند فیصلہ ہے جس سے ملکی خزانے سے بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ایک وزیر پر ماہانہ ستر لاکھ سے ایک کروڑ روپے اخراجات آتے ہیں اورچھوٹی کابینہ سے خزانے کو رواں مالی سال کے دوران تین سے چار ارب روپے اور آئندہ مالی سال تقریباً دس ارب روپے کی بچت ہوگی ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب حکومت کو مختلف اداروں میں کرپٹ لوگوں کے خلاف عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔جمعہ کو اجلاس کے بعد پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل جہانگیر بدر کی پریس کانفرنس میں ایک اور اہم بات یہ نوٹ کی گئی کہ انہوں نے عوامی مسائل کے حوالے سے بھی بات کی ہے اور بتایا ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے بھی صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں ۔
اگر چہ اس تمام تر صورتحال میں وفاقی کابینہ سے الگ ہونے پر حکمران جماعت کو بعض حلقوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تاہم پی پی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ تقریبا ڈیڑھ سال بعد اسے پھر ووٹ کے حصول کیلئے عوام کے پاس ہی جانا ہے اور اگر اب بھی عوامی مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو عوام بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو ان کے ساتھ اب ہو رہا ہے ۔
نئی کابینہ کی تشکیل کے لئے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے متحدہ قومی موومنٹ، جے یو آئی اور آئی این پی سے بھی رابطے شروع کر دیئے ہیں تاہم متحدہ اور اے این پی دوبارہ کابینہ میں شامل ہوتی ہے یا نہیں، آئندہ حکومت ایک قومی حکومت بنے گی یاپھر تنہا پیپلزپارٹی میدان میں آئے گی؟۔۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے حوالے سے تجزیہ کار کچھ بھی کہنے سے گریزاں ہیں۔ تاہم کابینہ کی کمی سے یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ عوام کے سڑکوں سے آنے سے پہلے ہی حکمرانوں نے مثبت انقلابی تبدیلیوں کا آغاز کر دیا ہے ۔