اکثر سیاست دان یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ سیاست میں ”حرف آخر“ نہیں ہوتا ، پاکستانی سیاست میں اس کی ایک اور مثال بدھ کو اس وقت سامنے آئی جب تیرہ سال پرانے حریف مسلم لیگ ن اور متحدہ قومی موومنٹ حکمراں اتحاد کے خلاف مشترکہ اپوزیشن پر متفق ہو گئیں ۔
27 جون کو ایم کیو ایم حکومت سے الگ ہوئی۔ غالباًمتحدہ کا یہ نون لیگ کی جانب بڑھنے کا پہلا قدم تھا ۔ مسلم لیگ ن نے متحدہ کا خیر مقدم کیا تاہم اس کے بعد چار دنوں تک چار سو خاموشی چھا گئی اور مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کی مشترکہ اپوزیشن پر بحث ہوتی رہی ۔
دو جولائی کو نواز شریف نے اس خاموشی کو توڑا۔انہوں نے ایم کیو ایم کو گرینڈ اپوزیشن اتحادمیں شمولیت کی دعوت دی ۔ نواز شریف کے اس بیان پر تمام نگاہیں ایم کیو ایم کے جواب پر مرکوز ہو گئیں تاہم دوسری جانب سے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔اسی دوران یہ خبریں بھی منظر عام پر آتی رہیں کہ دونوں جماعتوں کے درمیان 'بیک ڈور' رابطے جاری ہیں ۔
چار جولائی کومسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کے درمیان لندن میں بظاہر مختصر ملاقات ہوئی مگر اس رابطے سے دونوں جماعتوں کے ایک بار پھر قریب آنے کے امکانات روشن ہو گئے ۔ اسی روز مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار نے میڈیا کے سامنے انکشاف کیا کہ ایم کیو ایم سے ان کا رابطہ تھا ، ہے اور رہے گا ۔
پانچ جولائی کو کراچی میں قتل و غارت گری پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے حکومت پر واضح کیا کہ اتحاد سے الگ ہونے کی سزا کراچی میں حالات خراب کر کے نہ دی جائے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر ایسا احتجاج کیا جائے گا جو حکومت کے خاتمے تک جاری رہے گا ۔ اس بیان سے ماہرین نے صورتحال کابخوبی اندازہ لگالیا کہ اب ایم کیو ایم اقتدار میں واپس جانے کی کشتیاں جلاچکی ہے اور اس کا ساتھ اب صرف مسلم لیگ ن کے ساتھ ہی ہو گا ۔
چھ جولائی کو دونوں جماعتوں کے وفود کے درمیان اسلام آباد میں خفیہ ملاقات ہوئی تاہم میڈیا کو اس کی بھنک مل ہی گئی ۔ ملاقات کے بعد دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے باضابطہ طور پر ذاتی رنجشیں بھلا کر حکمراں اتحاد کے خلاف مشترکہ اپوزیشن کا اعلان کر دیا اور یوں دونوں کے درمیان تیرہ سال کی دوریاں صرف نو دنوں میں سمٹ گئیں ۔