پاکستان کی حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کیلئے دسمبر کا مہینہ اپنے دامن میں بہت سی مشکلات لے کر آیا ہے۔ اس بات کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے ہفتے ہی میں اس کے راہنما اور پاکستان کے صدر آصف علی زرداری علیل ہوگئے جس کے بعد آسانی سے نہ تھمنے والی افواہوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ صدر ان افواہوں کے جمگھٹے سے نکل بھی گئے تب بھی اس پورے مہینے انہیں کئی امتحانات سے گزرنا ہوگا۔
کراچی کے رہائشی مختلف سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں نے موجودہ سیاسی صورتحال کا بغور جائزہ لینے اور پیپلز پارٹی کو فی الفور درپیش حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد جونتیجہ اخذ کیا ہے اس کے مطابق رواں ماہ پیپلز پارٹی کو سیاسی اور عدالتی دونوں قسم کے امتحانات درپیش ہوں گے۔ آیئے ذیل میں ان امتحانات پر تفصیلی نظر ڈورائی جائے۔
حکمراں جماعت کو درپیش سیاسی امتحانات:
بلوچستان کے ایک تعلیمی ادارے میں تدریسی فرائض کی انجام دہی میں مشغول اور کراچی کے دیرینہ رہائشی مظہر محمود عباسی کا کہنا ہے کہ’ سیاسی میدان میں پیپلزپارٹی کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے نفاذ کا ہے۔ اس معاملے پر مشاورت طویل سے طویل تر ہو رہی ہے۔ ایک جانب ایم کیو ایم کا موقف ہے تو دوسری جانب مسلم لیگ فنکشنل اور اے این پی کھڑی ہیں۔ ہر تیسرے روز الگ الگ مسودوں کی خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں۔ تاہم، حالات میں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ اُن کامزید کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے موقف کی تائید ،پیپلزپارٹی کے اندربھی پھوٹ ڈال سکتی ہے ۔‘
دوسری جانب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق میں سندھ کی وزارتوں سے متعلق بھی اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں ۔ق لیگ کے جنرل سیکریٹری حلیم عادل شیخ کے مطابق ق لیگ سندھ نے 18 دسمبر کو مسلم لیگ سندھ کونسل کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کی صدارت ق لیگ سندھ کے صدر غوث بخش مہر کریں گے۔ صوبے سے 115 ممبران کی شرکت بھی متوقع ہے۔ اجلاس میں کارکنوں میں پائی جانے والی بے چینی اور پیپلزپارٹی کے معاملات پر غور کیا جائے گا۔
اتحادیوں کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کی سب سے بڑی حریف جماعت مسلم لیگ ن بھی پی پی کےہوم گراؤنڈ یعنی لاڑکانہ میں ایک روز بعد 10 دسمبر کو عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے جا رہی ہے اور میڈیا پر آنے والی خبروں کےمطابق بہت سے دیگر جماعتوں کے عہدیدار اس جلسے کیلئے ن لیگ کا بھر پور ساتھ دے رہے ہیں ۔
تحریکِ انصاف کا 25 دسمبر کو کراچی میں جلسہ عام:
اسی ماہ کی 25 تاریخ کو تحریک انصاف مزار قائد پر کراچی کوفتح کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے، اس موقع پر سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر آصف علی زرداری سے متعلق اہم انکشافات کا اعلان کر رکھا ہے ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جس طرح پنجاب میں مسلم لیگ ن کو ’ٹف ٹائم‘ دیا اسی طرح شاہ محمود قریشی اب سندھ میں پیپلزپارٹی کو ’ٹف ٹائم‘ دیں گے جس کی ایک جھلک 27 نومبر کو گھوٹکی میں بھی دیکھی گئی ۔
ماہرین کے مطابق ملک میں پیپلزپارٹی کے لئے حالات دسمبر میں یکسر تبدیل ہو چکے ہیں ۔ پی پی کے مخالفین کی جانب سے میڈیا پر صدر آصف علی زرداری پر لگائے جانے والے مبینہ الزامات کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے سندھ کارڈ کو کمزور کرنے کی کوشش جاری ہے ۔ سرفہرست الزامات میں صدر زرداری اور حسین حقانی کی ایبٹ آباد آپریشن سے آگاہی اور میمو گیٹ اسکینڈل سر فہرست ہیں ۔
عدالتی امتحانات:
نام ظاہر نہ کرنے پر بضد مبصرین کے مطابق ’میمو گیٹ اسکینڈل‘ پر مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کی درخواست پر سپریم کورٹ نے صدر آصف علی زرداری سے بھی سولہ دسمبر تک جواب طلب کر رکھا ہے جس میں سے سات دن گزر چکے ہیں آٹھ دن باقی ہیں ۔ 25 نومبرکو سپریم کورٹ کی جانب سے این آر او فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست مسترد ہونے کے بعد حکم دیا گیا تھا کہ سولہ نومبر 2009 کے فیصلے پر بغیر کسی تاخیر کےعملدرآمد کیا جائے لیکن 13 دن گزر جانے کے بعد تاحال حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ۔
اس کے علاوہ بھی متعدد مقدمات پر یہ تاثرعام ہے کہ حکومت عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کر رہی جو آنے والے چند ہفتوں میں پیپلزپارٹی کو مزید مشکلات کا شکار کر سکتے ہیں ۔
ایبٹ آباد کمیشن کی جانب سے صدر زرداری کوسوالنامہ:
دو مئی کو ایبٹ آباد واقعہ کی تحقیقات کیلئے قائم کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) جاویداقبال نے انکشاف کیا ہے کہ صدر زرداری کو بھی ایک سوال نامہ بھیج دیا گیا ہے ، اگر چہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے۔ تاہم، انہیں پارٹی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے سوالنامہ بھجوایا ہے جس سے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اب صدر کیلئے پارٹی عہدہ بھی چیلنج بن سکتا ہے ۔ ادھر لاہور ہائی کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدبابر اعوان کی پریس کانفرنس پر لاہور ہائی کورٹ نے بابراعوان سے بھی بیس دسمبر کو جواب طلب کر لیا ہے ۔
حکومت اور فوج میں دوریوں کا تاثر:
’میمو گیٹ اسکینڈل‘ پر ملکی اور غیر ملکی میڈیا پر یہ تاثرملتا ہے کہ حکومت اورفوج میں دوریاں پیدا ہو چکی ہیں ۔بدھ کو امریکی جریدے فارن پالیسی کے اس دعوے کے بعد کہ صدر آصف علی زرداری طبی بنیادوں پر مستعفی ہو سکتے ہیں ، ایک نئی ہلچل مچی ہوئی ہے ۔بعض حلقوں کاخیال ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کےبعد سے ہی حکومت اورعسکری اختلافات جنم لے چکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ایکس مین سروس کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا تھا کہ’ ایٹ لیسٹ ‘ پاک فوج دو مئی کے واقعہ سے آگاہ نہیں تھی ، جس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ فوج آگاہ نہیں تھی سیاسی قیادت کا معلوم نہیں ۔
اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ حسین حقانی سے استعفیٰ فوج ہی کے کہنے پر لیا گیا ہے اور اس معاملے پر صرف حسین حقانی ہی نہیں بلکہ دیگر حکومت کے بڑے بڑے عہدیدار بھی لپیٹ میں آئیں گے ۔