پندرہ دنوں تک پاکستان کے سیاسی و عوامی حلقوں میں ہلچل مچانے والے پیپلزپارٹی کے سابق سینئر صوبائی وزیر ڈاکٹر ذوالفقار مرزاکے حوالے سے کچھ میڈیا رپورٹس ہیں کہ وہ دبئی چلے گئے ہیں۔ اس خبر کی تصدق میں تو شاید ابھی کچھ وقت لگے تاہم اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ ان کے مبینہ انکشافات سے چھڑنے والی بحث سمٹنے کے بجائے مزید طول پکڑتی جا رہی ہے ، پیرکو جہاں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے پہلی مرتبہ الزامات کے جواب میں کسی حد تک صفائی پیش کرنے کی کوشش کی وہیں صوبائی وزیر داخلہ بھی مرزا پر گرج پڑے ۔ ادھر اس تمام بحث کے مرکز نگاہ سینئر صوبائی وزیر پیر مظہر الحق نے الزامات کے درست اور غلط ہونے کا فیصلہ وقت پر چھوڑ دیا جس کے بعد مبصرین کے نزدیک ذوالفقار مرزاکے انکشافات کے پس پردہ طاقت ظاہر ہونے میں مزید وقت لگے گا ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پیر کو پیپلزپارٹی کے سابق سینئر صوبائی وزیر ذوالفقار مرزا اپنی اہلیہ فہمیدہ مرزا کے ہمراہ اچانک دبئی روانہ ہو گئے اور باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ ذوالفقا ر مرزا کا دبئی میں قیام طویل بھی ہو سکتا ہے ، نصف ماہ قبل سیاست اور میڈیا پر اپنے انکشافات کے چھائے رہنے والے ذوالفقار مرزا کی اچانک اس طرح دبئی روانگی کو ماہرین انتہائی معنی خیز قراردے رہے ہیں ۔
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے ذوالفقار مرزا کی جانب سے لگائے گئے الزامات پرپہلی مرتبہ چپ کا روزہ توڑا اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کراچی کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وہ حلفیہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی ٹارگٹ کلر کو نہیں چھڑایا اور اگر ایسا کیا ہے تو اللہ مرتے وقت انہیں کلمہ بھی نصیب نہ کرے ۔ ادھر صوبائی وزیر داخلہ منظور وسان نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ذوالفقار مرزا کی تنقید کے جواب میں کہاوہ پڑھے لکھے جاہل ہیں اور کسی اور کی زبان بول رہے ہیں ۔
ذوالفقار مرزا کس کی زبان بول رہے ہیں ؟ پچھلے پندرہ دنوں میں سب سے زیادہ اسی سوال کا جواب تلاش کیا جاتا رہا ہے۔ اگر چہ بعض ماہرین اس بات پر متفق تھے کہ پیپلزپارٹی کے سینئر صوبائی وزیر پیر مظہر الحق کے میڈیا پر آنے کے بعد اس کا کوئی جواب مل سکے گا مگر وہ بھی ذوالفقار مرزا کے الزامات کی تردید یا تائید کرتے نظر نہیں آ رہے ۔ یاد رہے کہ ذوالفقار مرزا نے انکشاف کیا تھا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے لندن میں ہونے والی ملاقات میں پیر مظہر الحق بھی شریک تھے اور ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو کے وہ واحد گواہ ہیں ۔
پیر مظہر الحق پہلی مرتبہ اتوار کو مزار قائد پر میڈیا کے سامنے آئے اور انہوں نے ملاقات کی تصدیق کی اور یہ بھی کہا کہ وہ ذوالفقار مرزا کو جھوٹا نہیں کہیں گے، جس سے محسوس ہو رہا تھا کہ شاید مرزا کا پلڑا بھاری ہو گیا تاہم پیر کو ایک اوربیان میں پیر مظہر الحق نے کہا کہ یہ وقت بتائے گا کہ کون درست ہے اور کون غلط ، اس کے ساتھ ساتھ پیر مظہر الحق کی جانب سے مرزاکو نام لیے بغیر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا اور کہا کہ جو لوگ ضرورت سے زیادہ پبلسٹی چاہتے ہیں وہ اپنے جوتے کے بجائے بڑے سائز کے جوٹے میں پاؤں ڈالتے ہیں ۔ میرے جیسے ادنیٰ کارکن کے پاس شوگرمل نہیں صرف قربانیاں ، جیل ، جلاوطنی اور پارٹی ڈسپلن کے مطابق مکمل وفاداری ہے ،کبھی پہلے یرغمال ہوئے نہ اب ہوں گے ۔
بعض مبصرین پیر مظہر الحق کی خاموشی کو صدر آصف علی زرداری کے منصوبے کا حصہ قرار دے رہے ہیں اوراسے ایک ایسا خفیہ کارڈ کہا جا رہا ہے جو بوقت ضرورت استعمال کیا جائے گا۔اگر ایم کیو ایم سے تعلقات بدستور قائم رہتے ہیں تو یہ کارڈ آئندہ سینیٹ انتخابات کے بعدیا آئندہ عام انتخابات سے پہلے استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات جیسی صورتحال پیدا ہو، جب ایم کیو ایم نے پیپلزپارٹی سے اتحاد توڑ کر دوریاں پیدا کر لی تھیں ۔
مبصرین کے نزدیک اگر پیر مظہر الحق ،ذوالفقار مرزا کے الزامات کی تصدیق کر دیتے ہیں توایم کیو ایم پھر ایک لمبے عرصے تک وضاحتیں پیش کرنے پر مجبور ہو جائے گی اورایسا تب ہی ہو گا جب صدر آصف علی زرداری چاہیں گے ۔