جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ کی طرف سے پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت سے علیحدگی کے فیصلے کے ایک روز بعد حکمران جماعت کا دیگر سیاسی پارٹیوں سے رابطوں کا سلسلہ جاری رہا۔
اس وقت قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو 185 اراکین کی حمایت کے ساتھ سادہ اکثریت حاصل ہے تاہم ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان تناؤکے پیش نظر حکومت کی مشکلات کے بارے میں سیاسی حلقے خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔
اوراس تناظر میں حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ق )کی اہمیت میں اضافہ ہوگیا ہے کیوں کہ قومی اسمبلی میں اس کے لگ بھگ 53 ممبران ہیں۔ وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے بدھ کو مسلم لیگ (ق) سے رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اہم جماعت ہے جس سے روابط کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ موجودہ صورت حال میں مسلم لیگ( ق) کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور پیپلزپارٹی کے اس سے رابطے مستقبل میں دونوں کے درمیان اتحاد کی وجہ بن سکتے ہیں ۔ لیکن مسلم لیگ (ق)کے سینیٹر وسیم سجاد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ق) ہمیشہ سے ایک اہم جماعت رہی ہے اور اُس کی سیاسی طاقت بدستور قائم ہے لیکن اُن کی جماعت حزب اختلاف میں رہ کر اپنا مثبت کردار ادا کرتی رہے گی۔
اُنھوں نے کہا ” میری ذاتی رائے ہے کہ حکومت کو اس وقت گرا کر نئے انتخابات کی طرف جانا یا کسی او ر کو لانا، شاید ہمارے مفاد میں بھی نہیں ہے ۔ ہم ایک سیاسی پارٹی ہیں اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ملک کے لیے اس وقت کیا بہتر ہے“۔
سیاسی تجزیہ کار احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے مولانافضل الرحمن کو بتائے بغیر اُن کی جماعت کے ایک وفاقی وزیر کو برطرف کردیا جو اُن کے بقول ایک بدانتظامی یا ’ مس مینجمنٹ ‘تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام کی طرف سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت کو دھچکا تو لگا ہے لیکن اگر مستقبل میں ایک اور اہم اتحادی جماعت ایم کیوایم بھی ایسا ہی فیصلہ کرتی ہے تو پھر سیاسی عدم استحکام مزید بڑھ جائے گا۔ ” اُس صورت میں پھر پیپلز پارٹی کے پاس اس حکومت قائم کورکھنے کے لیے ماسوائے مسلم لیگ (ق) سے رابطوں کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچے گا“۔
تاہم جتنی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے بیانات سامنے آئے ہیں اُن میں کہا گیا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے کیوں کہ ان حالات میں ملک نئے انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت کو اس مشکل سیاسی صورت حال کا سامنا ایسے وقت کرناپڑا رہا ہے جب وہ 20 دسمبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں مجوزہ اصلاحاتی جنرل سیلز ٹیکس کا بل منظوری کے لیے پیش کرنا چاہتی ہے ۔ ٹیکس اصلاحات کے اس بل پر پیپلز پارٹی کی حکومت کو اتحادی جماعت ایم کیوایم کی طرف سے شدیدمخالفت کا سامنا ہے۔
ایک روز قبل جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ نے حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ اُس وقت کیا جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے حج انتظامات میں بدعنوانی کے الزامات پروزرات مذہبی اُمور کے وزیر حامد سعید کاظمی کو اُن کے عہدے سے ہٹانے کے علاوہ اُن کے خلاف بیانات دینے کی پاداش میں جمعیت علمائے اسلام کے وفاقی وزیر اعظم سواتی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ اُنھیں اس فیصلے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اس لیے اُنھوں نے حکومت کو خیر آباد کہنے کا اعلان کیااوروہ اس موقف سے پیچھے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔