عید الاضحی کے فوری بعد پاکستان کے سیاسی افق پر ہونے والی سرگرمیاں غیر متوقع نہ سہی مگر سب کچھ اتنی جلدی جلدی ہوگا اس کی کسی کوبھی امید نہ تھی۔سیاسی مبصرین کے نزدیک تحریک پاکستان کے سربراہ عمران خان کا30اکتوبرکا لاہور میں ہونے والا جلسہ ان سرگرمیوں کا نقطہ آغاز تھا جبکہ شاہ محمود قریشی کے استعفے نے اس جلسے کے رنگ کو اور زیادہ گہرا کردیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ادھر مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کے اس بیان نے سیاسی ہلچل کو استحکام بخش دیا ہے کہ مسلم لیگ ن کے ارکان بھی کچھ عرصے بعد اسمبلی سے استعفے دینے کے آپشن پر عمل کرسکتے ہیں۔ گویا اس وقت پاکستانی سیاست میں دو اہم باتوں کی تکرار ہے استعفے اورہر روز تحریک انصاف میں نئے نئے لوگوں کی شمولیت۔
فی الوقت پاکستان کا تمام میڈیا شاہ محمود قریشی کے استعفے ،ان کی تحریک انصاف میں ممکنہ شمولیت اور اپوزیشن کے رویئے کے حوالے سے ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد کوئی نہ کوئی اہم تبصرہ یا خبر ضرور نشر کررہا ہے۔ ان تبصروں اور تجزئیوں کابغور جائزہ لینے کے بعد موجودہ سیاسی صورتحال کی جو تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے ، زیر نظر رپورٹ اسی کا احاطہ کرتی ہے ۔
اس کے مطابق:
شاہ محمود قریشی کے استعفے نے تینوں بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کو مزید بے چین کر دیا ہے۔ادھر رواں ہفتے میں ہی پاکستان میں ایک نئی سیاسی جماعت کا اعلان بھی متوقع ہے ۔
1۔ تیس اکتوبر کو لاہور میں پی ٹی آئی کے جلسے نے پاکستانی سیاست میں ایسی ہلچل پیدا کی کہ نومبر کاآدھا مہینہ اسی جماعت کے نام رہا ۔ اس دوران تقریباًہر روز کوئی نہ کوئی شخصیت تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرتی رہی۔ عمران خان کے بقول بڑی تعداد میں سابق ممبران قومی و صوبائی اسمبلی بھی ان سے رابطے میں ہیں ۔
2۔منگل کو بھی پنجاب کے ضلع چکوال میں ق لیگ کے بااثر سابق ضلعی ناظم غلام عباس اور سابق ناظم سردار آفتاب اکبر نے بھی عمران خان سے ملاقات کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا جبکہ اس سے قبل ن لیگ کے سابق ایم پی اے فیض ٹمن اور ن لیگ کے ہی تحصیل ناظم امیر بھٹی بھی تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں جو عمران خان کیلئے بڑا مارکہ سر کرنے سے کم نہیں ۔
3۔عمران خان ملکی میڈیا پر یہ دعویٰ تو کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ قریشی اپنا مستقبل تحریک انصاف سے وابستہ کریں گے لیکن دوسری جانب سے تاحال اس کی تائید اور تردید کرنے کے بجائے27 نومبر کے انتظار کا کہا جا رہا ہے ۔ 27نومبر کو تحریک پاکستان کا گھوٹکی میں جلسہ ہے اور گھوٹکی وہی علاقہ ہے جہاں مخدوم شاہ محمود قریشی کے مریدوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔
4۔عمران خان کے دعوے کو مد نظر رکھا جائے تو سیاسی پنڈت اس بات پر متفق نظر آ تے ہیں کہ شاہ محمود قریشی کی تحریک انصاف میں شمولیت سے نہ صرف پیپلزپارٹی بلکہ مسلم لیگ ن کو بھی شدید نقصان پہنچنے گا۔ اس عمل سے تحریک انصاف جس کے پاس جنوبی پنجاب میں کوئی مضبوط امیدوار نہیں تھا اسے اپنے قدم جمانے کا موقع مل جائے گا۔
5۔ اگر چہ شاہ محمود قریشی صرف ملتان تک محدود رہتے ہیں تاہم جنوبی پنجاب میں قومی اسمبلی کی 46 نشستوں کے حلقوں میں اکثریت میں ان کی مریدین کے بڑی تعداد موجود ہے ۔ اس کے علاوہ دیہی سندھ میں شاہ محمود قریشی کے مریدین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ممکنہ طور پر وہ گھوٹکی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کریں گے ۔
6۔ مبصرین کا خیال ہے کہ شاہ محمود قریشی کی تحریک انصاف میں شمولیت سے جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک بھی متاثر ہو گاکیونکہ ان حلقوں میں مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی مشترکہ امیدوار کے ساتھ اس پر حملہ آور ہوں گی ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں رکن اسمبلی ملک عباس نے کچھ روز قبل فاروڈ بلاک بنانے کا اعلان کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ بیس سے زاہد اراکین اسمبلی اپنے سیاسی مستقبل کے فیصلے کا اختیار شاہ محمود قریشی کو دے سکتے ہیں جنہیں منانے کیلئے پیپلزپارٹی پنجاب کی کوششیں جاری ہیں ۔
7۔دوسری جانب میڈیا ذرائع اس بات کی بھی تصدیق کر رہے ہیں کہ کچھ پرانے سیاست دان رواں ہفتے ایک نئی سیاسی جماعت کا اعلان کرنے والے ہیں جن میں جہانگیر ترین ،اویس لغاری ،جمال لغاری، اسحاق خاکوانی ، سکندر حیات بوسن سمیت کئی رہنماوٴں کے نام سامنے آرہے ہیں۔فوری طور پر اس نئی جماعت کا کوئی نام یا پارٹی منشور تو سامنے نہیں آسکا لیکن اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس جماعت میں موجودہ اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد شامل ہو سکتی ہے ۔