نامور سیاسی تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ اِس وقت پاکستان میں مذہبی گروہ اور جماعتیں جلسوں کی صورت میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں، جب کہ ماضی کے انتخابات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے، تومذہبی جماعتیں ’بالکل غیر مؤثررہی ہیں‘، ماسوائے 2002ء کے انتخابات کے۔
اتوار کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ مذہبی جماعتیں متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے)کو دوبارہ بحال کرنے کا سوچیں یا پھر نیا اتحاد تشکیل دیں، جب کہ اُن کے بقول، اگر وہ علیحدہ علیحدہ انتخابات کی طرف جاتی ہیں تو اُن کی کامیابی کا امکان کم نظر آتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سوا باقی مذہبی جماعتیں ماضی میں پارلیمان تک پہنچے میں کامیاب نہیں ہو پائیں، چونکہ وہ پریشر گروپ کے طور پر تو نظر آتی ہیں لیکن انتخابی سیاست میں مؤثر نہیں رہتیں۔
دوسری طرف، اُن کا کہنا تھا کہ آج کے حالات کو مدِ نظر رکھا جائے تو آئندہ کوئی ایک سیاسی پارٹی واضح اکثریت حاصل کرتی دکھائی نہیں دیتی، اور اُن کے بقول، لگتا یوں ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں جو انتخابات لڑتی آئی ہیں، وہ مخلوط حکومت بنا پائیں گی، جس بات کا جنوبی ایشیا کے خطے کے تناظر میں ’ایک رجحان‘ سا نظر آتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں، رسول بخش رئیس نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جمہوریت میں’ پختگی ضرور آئے گی اور قانون کی حکمرانی قائم ہوگی‘۔
دو مارچ کو سینیٹ کے انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے، تجزیہ کار نے کہا کہ حال ہی میں حکومت دباؤ کا شکار رہی ہے،’ جس سے نکلنے کا ایک راستہ‘ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ انتخابات کا اعلان کرے۔ لیکن، اُن کے بقول، جتنا بھی جلدی انتخابات کرانے کی کوشش کی جائے جولائی اگست سے پہلے ہوتے ہوئے نہیں لگتے۔۔۔شاید، اتفاقِ رائے اکتوبر کے لیے لگتا ہے۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: