دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں پر دو مارچ کو ہونے والے سینیٹ اور مستقبل کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی کے فیصلے پر ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی رائے بٹی ہوئی ہے اور ان میں سے بعض نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان کہتی ہیں کہ دوہری شہریت رکھنے والوں پر الیکشن کمیشن کی پابندی پر ناصرف پارلیمان کے اندر سیاسی جماعتیں بلکہ خود ان کی حکمران پیپلز پارٹی میں بھی منقسم رائے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ قانون پاکستان کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے سمندر پار ان پاکستانیوں میں بے چینی کا سبب بنا ہے جو قومی سیاست میں کردار ادا کرنے کے خواہشمند ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ حکمران جماعت کی کوشش ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نافذ العمل نئے قانون پر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کر کے اتفاق رائے سے اس کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے اور یہ معاملہ پارلیمان میں زیر بحث ہے۔
’’ابھی اس (دوہری شہریت) پر منقسم رائے ہے، حتیٰ کے (پیپلز) پارٹی کے اندر بھی۔ منسقم سوچ اس لیے بھی ہے کہ جو پاکستان کے اندر شب و روز گزارتے ہیں اگر ان کو باہر کے پاسپورٹ یا باہر کی شہریت (والے) آ کے ان کے حق کو نظر انداز کریں تو اس کا کس طرح تحفظ کیا جائے۔ تو اکثریت کی جو رائے ہو گی وہ ہی تسلیم کی جائے گی اور اکثریت کی جو سوچ ہے یہ یقیناً ہمیں اس کے لیے ایک اتفاق رائے پیدا کرنا ہو گا، مجھے یقین ہے کہ جلد ہی کسی حتمی نتیجے پر پہنچیں گے۔‘‘
حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمنٹ فوزیہ وہاب پیپلز پارٹی کے ان رہنماؤں میں شامل ہیں جو الیکشن کمیشن کے نئے قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔
’’ہوسکتا ہے وہاں سے اُنھوں نے جو تجربہ حاصل کیا ہو یا علم حاصل کیا ہو، وہ پاکستان کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہو۔ تو میں سمجھتی ہوں اس سلسلے میں دروازے بند کرنا، دوہری شہریت کے نام پر پابندی لگانا سمجھتی ہوں یہ درست نہیں ہوا۔‘‘
لیکن دوہری شہریت رکھنے والوں پر انتخابات لڑنے پر پابندی کے قانون پر فوزیہ وہاب کے موقف سے خود ان کی اپنی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر مخدوم شہاب الدین متفق نہیں ہیں۔’’جس کے مفاد دو ملکوں میں ہوں، وہ نا ادھر کا ہوتا ہے نا ادھر کا۔ تو جس کے مفادات صرف پاکستان میں ہی ہوں اسی کو انتخابات میں حصہ لینا چاہیئے۔‘‘
مخلوط حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کی رکن اسمبلی بشری گوہر نے مخدوم شہباب الدین کے موقف کی تائید کرتی ہیں ’’دو ملکوں کی شہریت رکھنے والے اگر پارلیمنٹ میں بیٹھیں گے تو ان کی وفاداری کس کے ساتھ ہو گی اس لیے الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست ہے۔‘‘
پارلیمان میں حزب اختلاف کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی شیخ آفتاب احمد کہتے ہیں کہ دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں پر انتخابات میں پابندی کا فیصلہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس پر تمام فریقین کو سوچ و بچار کے بعد ہی کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔
’’جو ملک سے باہر رہتے ہیں وہ بھی پاکستانی ہیں اُنھیں اپنے ملک سے اتنی محبت اور پیار ہے کیوں کہ وہ زرمبادلہ پاکستان پر نچھاور کرتے ہیں، جب بھی پاکستان پر کوئی مشکل وقت آتا ہے تو بے دریغ امداد کرتے ہیں۔ اس لیے میں سوچتا ہوں کہ اس میں بڑی سوچ سمجھ کی ضرورت ہے۔‘‘
پاکستان میں تیزی سے عوامی مقبولیت حاصل کرنے والی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی الیکشن کمیشن کے نئے قانون کے مخالفین میں شامل ہیں۔’’جو سالانہ دس ارب ڈالر کا زر مبادلہ اس ملک میں بھیج رہے ہیں جس پر پاکستان آج چل رہا ہے۔ یہ (بیرون ملک مقیم پاکستانی) ملک کا بڑا اثاثہ ہیں ان کے پیسے، بزنسز، گھر باہر ہیں لیکن وہ پاکستان کے لیے درد رکھتے ہیں۔ میں یہ درخواست کروں گا، ہم کوشش بھی کریں گے کہ ہم اس فیصلے پر نظر ثانی کرائیں۔‘‘
الیکشن کمیشن کے نئے قانون میں امیدواروں کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلی سے قبل اپنے کاغذات نامزدگی کے ساتھ کسی دوسرے ملک کی شہریت نا رکھنے کا بیان حلفی بھی جمع کرائیں گے کیوں کہ دوسری صورت میں انتخابی عمل میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوں گے۔ کمیشن کے ایک ترجمان نے اس قانون کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے آئین میں دوہری شہریت رکھنے والوں پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی کی شق پہلے سے موجود تھی جسے اب فعال کر دیا گیا ہے۔