اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد حکومت اس بات کی پابند ہے کہ آنے والے انتخابات سے قبل پارلیمان میں قائد حزب اختلاف سے مشاور ت کر کے پانچ ارکا ن پرمشتمل ایک نیا الیکشن کمیشن مقرر کرے اور اس مقصد کے لیے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کو ناموں پر مشتمل مجوزہ فہرست بھیج رکھی ہے ۔
تجویز کردہ ناموں پر اطلاعات کے مطابق اپوزیشن مسلم لیگ (ن ) کاسب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان جج صاحبان نے فوجی حکمران کے متعارف کردہ عبوری آئین کے تحت حلف اُٹھا رکھا تھا۔
لیکن حکمران پیپلزپارٹی کا الزام ہے کہ اپوزیشن لیڈر اس بات کو بہانہ بنا کر مجوزہ فہرست کو حتمی شکل دینے میں دانستہ تاخیر کر رہے ہیں اور اس تشویش کا اظہار وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے ایک بار پھر کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی زیر قیادت حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر ایس ایم ظفر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل تمام سیاسی جماعتوں اور ملک کے سیاسی نظام کے فروغ کے لیے ناگزیر ہے۔
عدالت عظمیٰ میں دائر مختلف درخواستوں میں بھی چیف جسٹس سے درخواست کی گئی ہے کہ جن میں استدعا کی گئی ہے کہ حکومت کو جلدازجلد الیکشن کمیشن کی تشکیل کا حکم دیا جائے کیوں کہ درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اب تک ہونے والے ضمنی انتخابات کی قانونی حیثیت ناصرف متنازع ہو گئی ہے بلکہ انتخابات سے متعلق آنے والے دنوں میں کوئی بھی سرگرمی آئین سے بالا تر ہو گی۔