آئینی ماہرین کا ماننا ہے کہ کوئی بھی ایسا قانون جو پاکستان کے دستور کی روح کے منافی ہو عدالت عظمیٰ اس پر نظر ثانی کا اختیار رکھتی ہے۔
پاکستان میں توہینِ عدالت سے متعلق قانون پارلیمان میں متعارف کروانے کے اعلان نے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کے درمیان نئی چپقلش کے خدشات پیدا کر دیے ہیں۔
مجوزہ بل کے تحت وزیر اعظم، وفاقی و صوبائی وزراء اور وزراء اعلیٰ کے سرکاری فیصلوں پر توہین عدالت کا قانون لاگو نہیں ہوگا۔
آئینی ماہرین کا ماننا ہے کہ کوئی بھی ایسا قانون جو پاکستان کے دستور کی روح کے منافی ہو عدالت عظمیٰ اس پر نظر ثانی کا اختیار رکھتی ہے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرم شیخ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مجوزہ قانون سازی پر اظہار خیال کرتے ہوئے متعلقین کو احتیاط برتنے کا مشورہ دیا۔
’’ان (اراکین پارلیمان) کو قانون سازی بڑی سوچ سمجھ کر کرنی چاہیئے اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے ... کیوں کہ یہ جو بھی قانون منظور کریں گے وہ جانچ پڑتال کے لیے عدالت کے سامنے ضرور آئے گا۔‘‘
اکرم شیخ نے توہین عدالت کے قانون کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد جج صاحبان کا مرتبہ بلند کرنا نہیں بلکہ ’’نظام عدل پر لوگوں کا اعتماد بحال رکھنا ہے‘‘۔
’’عدلیہ کی آزادی پر کیا جانے والا کوئی بھی حملہ، خواہ وہ قانون سازی کے ذریعے ہو یا اس کے بغیر، اس کی اجازت نہیں ہو سکتی۔‘‘
وفاقی کابینہ کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں توہین عدالت سے متعلق مجوزہ قانونی مسودے کی منظوری کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے اس تاثر کی نفی کی تھی کہ بل کے ذریعے حکومت عدلیہ کے اختیارات محدود کرنا چاہتی ہے۔
’’سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس قانون سازی کے ذریعے عدلیہ کو اپنے نابع کرنا چاہتے ہیں، بالکل ایسا کوئی ارداہ نہیں ہے – نا کبھی تھا، نا ہے اور نا ہی ہو سکتا ہے۔‘‘
وفاقی کابینہ نے اس قانونی مسودے کی ایسے وقت منظوری دی ہے جب سپریم کورٹ نے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو 12 جولائی تک یہ وضاحت کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے مقدمے کی بحالی کے لیے سوئس حاکم کو خط لکھیں گے یا نہیں۔
اس سے قبل عدالت عظمیٰ نے پرویز اشرف کے پیش رو یوسف رضا گیلانی کو خط نا لکھنے پر اُن کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں ناصرف اُنھیں تین مرتبہ عدالت میں طلب کیا بلکہ جرم ثابت ہونے پر سابق وزیرِ اعظم کو ان کے عہدے سے نااہل بھی قرار دے دیا۔
نئے مجوزہ قانون کی منظوری کے بعد وزیر اعظم نا تو عدالت کے سامنے پیش ہونے کے پابند ہوں گے اور نا ہی اُن کا کوئی اقدام عدلیہ کی حکم عدولی تصور کیا جائے گا۔
مجوزہ بل کے تحت وزیر اعظم، وفاقی و صوبائی وزراء اور وزراء اعلیٰ کے سرکاری فیصلوں پر توہین عدالت کا قانون لاگو نہیں ہوگا۔
آئینی ماہرین کا ماننا ہے کہ کوئی بھی ایسا قانون جو پاکستان کے دستور کی روح کے منافی ہو عدالت عظمیٰ اس پر نظر ثانی کا اختیار رکھتی ہے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرم شیخ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مجوزہ قانون سازی پر اظہار خیال کرتے ہوئے متعلقین کو احتیاط برتنے کا مشورہ دیا۔
’’ان (اراکین پارلیمان) کو قانون سازی بڑی سوچ سمجھ کر کرنی چاہیئے اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے ... کیوں کہ یہ جو بھی قانون منظور کریں گے وہ جانچ پڑتال کے لیے عدالت کے سامنے ضرور آئے گا۔‘‘
اکرم شیخ نے توہین عدالت کے قانون کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد جج صاحبان کا مرتبہ بلند کرنا نہیں بلکہ ’’نظام عدل پر لوگوں کا اعتماد بحال رکھنا ہے‘‘۔
’’عدلیہ کی آزادی پر کیا جانے والا کوئی بھی حملہ، خواہ وہ قانون سازی کے ذریعے ہو یا اس کے بغیر، اس کی اجازت نہیں ہو سکتی۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
وفاقی کابینہ کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں توہین عدالت سے متعلق مجوزہ قانونی مسودے کی منظوری کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے اس تاثر کی نفی کی تھی کہ بل کے ذریعے حکومت عدلیہ کے اختیارات محدود کرنا چاہتی ہے۔
’’سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس قانون سازی کے ذریعے عدلیہ کو اپنے نابع کرنا چاہتے ہیں، بالکل ایسا کوئی ارداہ نہیں ہے – نا کبھی تھا، نا ہے اور نا ہی ہو سکتا ہے۔‘‘
وفاقی کابینہ نے اس قانونی مسودے کی ایسے وقت منظوری دی ہے جب سپریم کورٹ نے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو 12 جولائی تک یہ وضاحت کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے مقدمے کی بحالی کے لیے سوئس حاکم کو خط لکھیں گے یا نہیں۔
اس سے قبل عدالت عظمیٰ نے پرویز اشرف کے پیش رو یوسف رضا گیلانی کو خط نا لکھنے پر اُن کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں ناصرف اُنھیں تین مرتبہ عدالت میں طلب کیا بلکہ جرم ثابت ہونے پر سابق وزیرِ اعظم کو ان کے عہدے سے نااہل بھی قرار دے دیا۔
نئے مجوزہ قانون کی منظوری کے بعد وزیر اعظم نا تو عدالت کے سامنے پیش ہونے کے پابند ہوں گے اور نا ہی اُن کا کوئی اقدام عدلیہ کی حکم عدولی تصور کیا جائے گا۔