پاکستان کی سینیٹ یعنی پارلیمان کے ایوان بالا نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ وطن واپسی پر سابق صدر پرویز مشرف کو فوری طور پر گرفتار کرکے اُن کے خلاف غداری کا مقدمہ چلائے۔
سابق فوجی صدر نے چار سالہ خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے 27 اور 30 جنوری کے درمیان پاکستان واپسی کا اعلان کر رکھا ہے۔ منصوبے کے تحت وہ کراچی ایئرپورٹ پر اُتریں گے لیکن سندھ کی صوبائی حکومت اور وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ پرویز مشرف کو آمد کے فوراً بعد حراست میں لے لیا جائے گا۔
پیر کی شام سینیٹ کے اجلاس میں حکمران پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما رضا ربانی نے سابق صدر کے خلاف پیش کی گئی قرار داد میں اُن کی وطن واپسی پر گرفتاری اور غداری کا مقدمہ چلانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس فوجی آمر نے پاکستان کے آئین کو دو مرتبہ معطل کیا اور عدلیہ کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا۔‘‘
پاکستان کے آئین کی شق 6 کے تحت وفاقی حکومت کو دستور کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کرنے کا اختیار حاصل ہے اور اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا موت ہے۔
پرویز مشرف کے خلاف قرارداد میں جن دیگر الزامات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں دوسرے ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ خفیہ اور غیر تحریر شدہ معاہدے کرکے پاکستان کے قومی سلامتی سے متعلق مفادات کو خطرے میں ڈالنا بھی شامل ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف مبینہ طور پر پاکستانی عوام کے خلاف متعدد جرائم کے مرتکب ہوئے جب کہ صوبہ بلوچستان سے متعلق اُن کی حکمت عملی اور ریاستی طاقت کے استعمال سے جانی نقصانات بھی ہوئے۔
اُن پر سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم نے اس قرارداد کی توثیق نہیں کی۔