پاکستان کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی ، این آر او پر سپریم کورٹ کے 10جنوری کے فیصلے سے مزید مشکلات میں گھر گئی ہے۔ فیصلے کی رو سے اسے سب سے پہلے اسی مسئلے سے نمٹنا ہوگا کہ وہ 16جنوری کو عدالت عظمیٰ میں کس انداز سے پیش ہو کہ جس سے اس کی مشکلات بھی کم ہوں اور اسے سانس لینے کا موقع بھی مل سکے۔
چونکہ عدالت حکومت سے صدر زرداری کے خلاف سوئس مقدمات کھولنے کیلئے اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق فیصلہ جاننا چاہتی ہے لہذا یہ نکتہ حکمراں جماعت کی نیندیں اڑائے ہوئے ہے۔ عدالت گزشتہ سماعت پرہی یہ کہہ چکی ہے کہ احکامات پر عمل نہ کیا گیا تو چاہے جتنی بڑی اتھارٹی ہو ایکشن لیا جائے گا۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رکھنا ہوگی کہ دو روز قبل صدر زرداری نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں واضح طور پر کہا تھا کہ سوئس مقدمات کھولنا بے نظیر بھٹو کی قبر کے ٹرائل کے مترادف ہوگا جو پیپلزپارٹی کبھی نہیں چاہتی۔
پیپلز پارٹی کو سر دست این آر او ہی مشکلات کا باعث نہیں بلکہ میمو اسکینڈل پر سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دیئے گئے کمیشن کی کارروائی جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہے ، گتھی سلجھنے کے بجائے الجھتی جا رہی ہے۔ کیس کے مرکزی کردار منصور اعجاز سولہ جنوری کو پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ ان کے وکیل نے استدا کی ہے کہ انہیں فوج کی سیکورٹی دی جائے اور ان کے خلاف پاکستان میں کوئی مقدمہ بھی قائم نہ کیا جائے جس پر کمیشن نے دو مطالبات مان لیے تاہم پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما بابر اعوان نے میڈیا کو بتایا کہ آئین کے تحت عدالت، فوج کو کسی شخص کی سیکورٹی کا حکم نہیں دے سکتی۔ کسی بھی شخص کی سیکورٹی کی ذمہ داری حکومت کی ہے ، اگر پاکستانی حدود میں کوئی شخص پاکستان کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے توحکومت اس کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔
ادھر میمو اسکینڈل پر وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے چینی ذرائع ابلاغ کو انٹرویو میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے بیان کو غیر آئینی قرار دے کر اپنی جماعت کے لئے مزید مشکلات بڑھا لی ہیں۔ ان کا تو موقف یہ ہے کہ حکومت کی اجازت کے بغیر کسی سرکاری عہدیدارکا سرکاری فعل ، غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، لیکن وزیراعظم کے اس بیان نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ بعض قانونی ماہرین وزیراعظم کے بیان کی مخالفت کر رہے ہیں تو کچھ حمایت بھی کر رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے وطن واپسی بھی پی پی کے لئے ایک بڑا امتحان بن سکتی ہے کیونکہ ایک جانب تو اسے مشرف کی حامی لابی حکومت کو ان کے خلاف کسی اقدام سے بعض رکھنے کی کوشش کرے گی تو دوسری جانب مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
سندھ کی سطح پر ایک جانب تو صوبے میں نئے بلدیاتی نظام پر پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے مذاکرات نتیجہ خیز ہونے کے بجائے مزید طول پکڑ رہے ہیں تو دوسری جانب مسلم لیگ ق سندھ میں وزارتوں کے معاملے پر بھی کچھ ناراض ہے۔پی پی کو اس مشکل سے بھی مہارت کے ساتھ نمٹنا ہوگا۔
مذکورہ تمام مشکلات کے ساتھ ساتھ نئے صوبوں کے معاملے پر ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان اختلافات سینیٹ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں لہذا اس پر بھی پی پی کو ابھی سے سوچنا ہوگا۔