قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی اور مخدوم امین فہیم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونا درست اقدام نہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ ان کے رہنماؤں کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونا درست اقدام نہیں اور اگر ماضی کی سیاست دہرائی گئی تو یہ حکومت کے لیے بھی درست نہیں ہو گا۔
جمعرات کو کراچی میں انسداد بدعنوانی کی ایک عدالت نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر و سابق وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے "ایف آئی اے" کی طرف سے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان میں بدعنوانی کے الزام میں ان دونوں سیاستدانوں سمیت اداے کے اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
جمعہ کو صحافیوں سےگفتگو کرتے ہوئے ایوان زیریں 'قومی اسمبلی' میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نظام کو بچانے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے اور اگر ان کے رہنماؤں کو کسی بھی طرح ان کے بقول سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا تو پیپلز پارٹی کو پھر کوئی اور راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔
"یہ سمجھ نہیں آتا کہ حکومت یہ خود کر رہی ہے یا کروا رہی ہے، کیوں کر رہی ہے کس کے جھانسے میں آ رہی ہے۔ ۔ ۔ حکومت کو چاہیئے کہ بیٹھ کر اس چیز کو دیکھے اگر حکومت نے اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا اور اسی طرح سے ظلم و جبر چلتا رہا، پھر ماضی کی سیاست دہرائی گئی تو میں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی سوچے گی کہ آخر کب تک ہم جمہوریت کے نام پر چلتے رہیں گے، اس طریقے سے جمہوریتیں نہیں چلتیں، انتقام پر جمہوریتیں نہیں چلتیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف ان معاملات کو دیکھیں اور ان کے بقول اگر معاملات وزیراعظم کے ہاتھ سے آگے بڑھ گئے ہیں تو پیپلزپارٹی کو اعتماد میں لیں تاکہ مل کر اس کا مقابلہ کیا جا سکے۔
قائد حزب اختلاف کے اس بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کے سینیٹر ظفر علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ قانونی معاملات عدالتوں کے تحت چل رہے ہیں اور حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔
"افسوس کی بات ہے کہ قائد حزب اختلاف اس بات میں فرق نہیں کر رہے کہ وہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری فاضل عدالت نے جاری کیے وہ کسی ایگزیکٹو آرڈر یا وزیراعظم کے دفتر یا کسی انتظامی دفتر سے جاری نہیں ہوئے۔ کیا کوئی بھی عدالت پاکستان کے وزیراعظم کے ماتحت ہے۔۔۔۔یہ کوئی سیاسی انتقام نہیں اور خورشید شاہ جیسے سینیئر سیاستدان کو ایسا نہیں کہنا چاہئیے۔"
ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں مقدمے میں ملزمان کو طلب کرتیں اور ان کے پیش نہ ہونے پر وارنٹ گرفتاری بھی جاری کرتیں ہیں اس میں "حکومت کہاں سے آ گئی"۔
پاکستان پیپلز پارٹی 2008ء سے 2013ء تک اقتدار میں رہی اور اس کے رہنما یہ کہتے رہے کہ ان کے دور حکومت میں نہ تو کوئی سیاسی قیدی تھا اور نہ ہی کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔
2013ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جب کہ اس کی روایتی حریف سمجھی جانے والی پاکستان مسلم لیگ ن کو اس میں واضح برتری حاصل ہوئی۔
حالیہ مہینوں میں وزیراعظم نواز شریف ملکی امور میں ہونے والے مختلف مشاورتی اجلاسوں میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی مدعو کر چکے ہیں جب کہ آصف زرداری وزیراعظم کو جمہوریت کے تسلسل میں اپنی جماعت کی بھرپور حمایت کا یقین بھی دلاتے آئے ہیں۔
رواں ہفتے ہی ایک احتساب عدالت نے آصف زرداری کو بدعنوانی کے ایک برسوں پرانے مقدمے سے بری کردیا تھا۔
جمعرات کو کراچی میں انسداد بدعنوانی کی ایک عدالت نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر و سابق وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے "ایف آئی اے" کی طرف سے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان میں بدعنوانی کے الزام میں ان دونوں سیاستدانوں سمیت اداے کے اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
جمعہ کو صحافیوں سےگفتگو کرتے ہوئے ایوان زیریں 'قومی اسمبلی' میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نظام کو بچانے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے اور اگر ان کے رہنماؤں کو کسی بھی طرح ان کے بقول سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا تو پیپلز پارٹی کو پھر کوئی اور راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔
"یہ سمجھ نہیں آتا کہ حکومت یہ خود کر رہی ہے یا کروا رہی ہے، کیوں کر رہی ہے کس کے جھانسے میں آ رہی ہے۔ ۔ ۔ حکومت کو چاہیئے کہ بیٹھ کر اس چیز کو دیکھے اگر حکومت نے اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا اور اسی طرح سے ظلم و جبر چلتا رہا، پھر ماضی کی سیاست دہرائی گئی تو میں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی سوچے گی کہ آخر کب تک ہم جمہوریت کے نام پر چلتے رہیں گے، اس طریقے سے جمہوریتیں نہیں چلتیں، انتقام پر جمہوریتیں نہیں چلتیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف ان معاملات کو دیکھیں اور ان کے بقول اگر معاملات وزیراعظم کے ہاتھ سے آگے بڑھ گئے ہیں تو پیپلزپارٹی کو اعتماد میں لیں تاکہ مل کر اس کا مقابلہ کیا جا سکے۔
قائد حزب اختلاف کے اس بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کے سینیٹر ظفر علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ قانونی معاملات عدالتوں کے تحت چل رہے ہیں اور حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔
"افسوس کی بات ہے کہ قائد حزب اختلاف اس بات میں فرق نہیں کر رہے کہ وہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری فاضل عدالت نے جاری کیے وہ کسی ایگزیکٹو آرڈر یا وزیراعظم کے دفتر یا کسی انتظامی دفتر سے جاری نہیں ہوئے۔ کیا کوئی بھی عدالت پاکستان کے وزیراعظم کے ماتحت ہے۔۔۔۔یہ کوئی سیاسی انتقام نہیں اور خورشید شاہ جیسے سینیئر سیاستدان کو ایسا نہیں کہنا چاہئیے۔"
ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں مقدمے میں ملزمان کو طلب کرتیں اور ان کے پیش نہ ہونے پر وارنٹ گرفتاری بھی جاری کرتیں ہیں اس میں "حکومت کہاں سے آ گئی"۔
پاکستان پیپلز پارٹی 2008ء سے 2013ء تک اقتدار میں رہی اور اس کے رہنما یہ کہتے رہے کہ ان کے دور حکومت میں نہ تو کوئی سیاسی قیدی تھا اور نہ ہی کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔
2013ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جب کہ اس کی روایتی حریف سمجھی جانے والی پاکستان مسلم لیگ ن کو اس میں واضح برتری حاصل ہوئی۔
حالیہ مہینوں میں وزیراعظم نواز شریف ملکی امور میں ہونے والے مختلف مشاورتی اجلاسوں میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی مدعو کر چکے ہیں جب کہ آصف زرداری وزیراعظم کو جمہوریت کے تسلسل میں اپنی جماعت کی بھرپور حمایت کا یقین بھی دلاتے آئے ہیں۔
رواں ہفتے ہی ایک احتساب عدالت نے آصف زرداری کو بدعنوانی کے ایک برسوں پرانے مقدمے سے بری کردیا تھا۔