پنجاب اسمبلی کے دو ارکان کے نام صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کی طرف سے نامزدگی کے بعد کمیشن میں شامل کئے جائیں گے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا نے صدرِ مملکت کی ہدایات پر پنجاب میں نئے صوبے بنانے کے لیے ایک 14 رکنی کمیشن تشکیل دیا ہے۔
اس سلسلے میں جمعرات کو پارلیمان کے ایوانِ زیریں کے سیکرٹریٹ کی طرف سے جاری ہونے والے باضابطہ اعلامیے میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اُن اراکین کے ناموں کا بھی اعلان کیا گیا ہے جو اس کمیشن کا حصہ ہوں گے۔
’’پنجاب اسمبلی کے دو ارکان کے نام صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کی طرف سے نامزدگی کے بعد کمیشن میں شامل کئے جائیں گے۔‘‘
کمیشن کے ارکان میں حکمران پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر، ملک محمد رفیق راجوانا، سید صغرا امام، مولانا عبدالغفور حیدری، حاجی محمد عدیل، کامل علی آغا، عارف عزیز شیخ، تہمینہ دولتانہ، جمشید احمد دستی، سید علی موسیٰ گیلانی اور فاروق ستار شامل ہیں۔
پیپلز پارٹی کی قیادت پنجاب میں جنوبی اضلاع پر مشتمل ایک صوبہ بنانے کی مہم چلا رہی ہے کیونکہ ان کے بقول ملک کے اس سب سے بڑے صوبے کے انتظامی و دیگر مسائل کے لیے یہ تقسیم ضروری ہے۔
ابتدا میں سرائیکی زبان پر مشتمل علاقوں کو صوبہ بنانے پر زور دیا جاتا رہا مگر لسانی خدشات کو ہوا دینے کی تنقید کے بعد مجوزہ صوبے کو جنوبی پنجاب کا نام دے دیا گیا۔
پنجاب میں حکمران مسلم لیگ (ن) نئے صوبوں کی حامی ہے مگر اس کا الزام ہے کہ مرکز میں حکمران پیپلز پارٹی سیاسی مفادات کے لیے صوبے کی تقسیم کی مہم چلا رہی ہے۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پی پی پی کے اُمیدوار نئے صوبے کا نعرہ زور و شور سے لگا کر سرائیکی خطے کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس سلسلے میں جمعرات کو پارلیمان کے ایوانِ زیریں کے سیکرٹریٹ کی طرف سے جاری ہونے والے باضابطہ اعلامیے میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اُن اراکین کے ناموں کا بھی اعلان کیا گیا ہے جو اس کمیشن کا حصہ ہوں گے۔
’’پنجاب اسمبلی کے دو ارکان کے نام صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کی طرف سے نامزدگی کے بعد کمیشن میں شامل کئے جائیں گے۔‘‘
کمیشن کے ارکان میں حکمران پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر، ملک محمد رفیق راجوانا، سید صغرا امام، مولانا عبدالغفور حیدری، حاجی محمد عدیل، کامل علی آغا، عارف عزیز شیخ، تہمینہ دولتانہ، جمشید احمد دستی، سید علی موسیٰ گیلانی اور فاروق ستار شامل ہیں۔
پیپلز پارٹی کی قیادت پنجاب میں جنوبی اضلاع پر مشتمل ایک صوبہ بنانے کی مہم چلا رہی ہے کیونکہ ان کے بقول ملک کے اس سب سے بڑے صوبے کے انتظامی و دیگر مسائل کے لیے یہ تقسیم ضروری ہے۔
ابتدا میں سرائیکی زبان پر مشتمل علاقوں کو صوبہ بنانے پر زور دیا جاتا رہا مگر لسانی خدشات کو ہوا دینے کی تنقید کے بعد مجوزہ صوبے کو جنوبی پنجاب کا نام دے دیا گیا۔
پنجاب میں حکمران مسلم لیگ (ن) نئے صوبوں کی حامی ہے مگر اس کا الزام ہے کہ مرکز میں حکمران پیپلز پارٹی سیاسی مفادات کے لیے صوبے کی تقسیم کی مہم چلا رہی ہے۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پی پی پی کے اُمیدوار نئے صوبے کا نعرہ زور و شور سے لگا کر سرائیکی خطے کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔