سرائیکی صوبے کا قیا م اچانک ہی پاکستانی سیاست کا گرما گرم موضوع بن گیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے اس کے باقاعدہ اعلان کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں تو دوسری جانب اس کی مخالفت میں بھی تیزی آنے لگی ہے، جبکہ اس صورتحال کا تیسرا اور سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ فی الحال ملک میں سرائیکی صوبے کے لئے نہ تو کہیں کوئی تحریک دکھائی دے رہی ہے اور نہ ہی اس کے مطالبے کے لئے کوئی جلسہ ، جلوس یا مظاہرہ ہوا ہے۔
سرائیکی صوبے کی گونج گزشتہ ہفتے کو اس وقت سے شروع ہوئی جب صدر آصف علی زرداری نے ملتان میں پیپلز پارٹی پنجاب کے عہدیداروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرائیکی صوبہ اسی حکومت میں بنے گا۔صدر نے واضح الفاط میں کہا کہ موجودہ جمہوری حکومت انتخابات سے پہلے سرائیکی صوبہ بنائے گی۔ انہوں نے وزیراعظم کو ہدایت کی کہ جنوبی پنجاب میں الگ سرائیکی صوبے کی تشکیل کیلئے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا عمل جلد شروع کریں۔صدر زر داری نے مستقبل کے سرائیکی صوبے کے حوالے سے ان خیالات کا بھی اظہار کیا کہ وہ ایسا صوبہ چاہتے ہیں جو معاشی طور پر اپنے پاوٴں پر کھڑا ہو۔
ادھر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے صدر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اظہار خیال کیا کہ سرائیکیوں کو انتظامی یونٹ نہیں الگ صوبہ چاہئیے۔ پہلے مظفر گڑھ اور بعد ازاں اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں وزیراعظم نے انکشاف کیا کہ سرائیکی صوبے پر ’اتفاق ‘ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے دو تہائی اکثریت بھی بنا لی ہے اور اب جمہوری حکومت سرائیکی صوبے کےقیام کو ہر صورت یقینی بنائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہزارہ اور سرائیکی سمیت نئے صوبوں کے ایشو زکو آئینی طریقے سے آگے بڑھایا جائے۔ معاملے کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
صدر اور وزیر اعظم کا یہ بیان دینا تھا کہ ان کی اتحادی جماعتیں بھی ان کے شانہ بشانہ آکھڑی ہوئیں۔ متحدہ قومی موومنٹ نے سرائیکی صوبے کے اعلان کو نہ صرف ہاتھوں ہاتھ لیا بلکہ اس حوالے سے کئے جانے والے تمام حکومتی عملی اقدامات کا خیر مقدم بھی کیا ۔ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ سرائیکی صوبے سے متعلق واضح اعلان ، خوش آئند ہے اور ایم کیوایم سمجھتی ہے کہ اس سلسلے میں عملی اقدامات شروع کئے جانے چاہئیں۔ تاہم، رابطہ کمیٹی نے سرائیکی صوبے کے ساتھ ساتھ صوبہ ہزارہ کے قیام کے عوامی مطالبہ پر بھی حکومت کی توجہ دلائی ۔
حکمراں جماعت پاکستانی پیپلز پارٹی کی چار اتحاد ی جماعتیں مسلم لیگ ق ، اے این پی ، ایم کیو ایم اور فنکشنل لیگ سرائیکی صوبے کے قیام کی حمایت کر رہی ہیں، تاہم مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کی طرف سے سرائیکی کے ساتھ ہزارہ صوبہ قیام کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔یہ دونوں جماعتیں سرائیکی کے ساتھ ہزارہ کو صوبہ بنانے کی شدو مد کے ساتھ حمایت کر رہی ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ بھی سرائیکی صوبے کے حق میں ہے جبکہ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ سرائیکی صوبے کے نام پر عوام کو مزیدبیوقوف نہ بنایا جائے ۔
قائد تحریک صوبہ ہزارہ کے لقب سے پہچان رکھنے والے بابا حیدر زمان جو بذات خود ہزارہ صوبے کے قیام کا مطالبہ کررہے ہیں ، وہی سرائیکی صوبے کے لئے سب سے پہلے مخالفت میں آگے آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے ہزارہ کے بجائے سرائیکی صوبے کا اعلان کیا تو ہم سول نافرمانی کی تحریک چلائیں گے ۔انہوں نے ایک پریس کانفرنس منعقد کی اور واضح کیا کہ انہیں لگتا ہے کہ حکومت سرائیکی عوام کے ساتھ بھی صرف مذاق ہی کر رہی ہے۔ سرائیکی صوبے کا اعلان صرف ووٹو ں کے لئے کیا گیا ہے ورنہ ہم صوبہ ہزارہ کیلئے 2 سال سے احتجاج کر رہے ہیں اور دو سال سے ہی یہ معاملہ جوں کا توں ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔
واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پہلے ہی سرائیکی اورہزارہ صوبوں کے قیام کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بل جمع کراچکی ہے تاہم یہ بل اب تک سردخانہ میں پڑے ہیں ۔ دوسری جانب ایک اخباری اطلاع کے مطابق جنوبی پنجاب کو سرائیکی صوبہ بنانے کیلئے اسلام آباد میں 21 ویں آئینی ترمیم لانے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔
سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین و مبصرین سرائیکی صوبے کی حکومتی مہم کو سیاسی فوائد سے تعبیر کررہے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ شاید حکومت کے پاس ایشوز ختم ہو گئے ہیں اور اب الیکشن کے لئے اسے کسی نئے ایشو کی ضرورت ہے ۔ماہرین کا خیال ہے کہ تباہ کن سیلابوں میں سرائیکیوں کی مدد میں بری طرح ناکامی کے بعد حکومت کو سرائیکی صوبے کا ایشوہی سیاسی لحاظ سے محفوظ پناہ گاہ فراہم کر سکتا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر سرائیکی صوبے کا ایشو اٹھا تو پھر بہاولپور، ہزارہ اور دیگر صوبوں کے ایشوز بھی کھڑے ہوجائیں گے تاہم ان ایشوز سے حکومت کس طرح نمٹے گی یہ آنے والا وقت ہی بتاسکے گا۔ یہ ایسے ایشوز ہیں جن پر حکومت کو سخت مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔