پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت مخالف مہم میں شدت آتی جارہی ہے اور ن لیگ کے قائدین اس تاثر کو زائل کرنے میں مصروف ہیں کہ ان کی جماعت صرف صوبہ پنجاب کی نمائندگی کرتی ہے۔
ہفتے کو (ن) لیگ کے سربراہ اور سابق وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے بالائی صوبہ سندھ کے اہم شہر اور حکمران جماعت پی پی پی کے گڑھ لاڑکانہ میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا۔
دورہ لاڑکانہ کے دوران میاں صاحب نے نہ صرف بھٹو خاندان کی قبروں پہ حاضری دی بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد بےنظیر بھٹو کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا عزم بھی ظاہر کیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کا یہ اقدام ان کے لیے سندھ کے عوام کی ہمدردیوں کے حصول کا باعث بن سکتا ہے تاہم ان ہمدردیوں کو انتخابی کامیابیوں میں بدلنا خاصا محنت، ذہانت اور وقت طلب کام ہوگا۔
اس وقت سینیٹ، قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی سندھ سے کوئی نمائندگی موجود نہیں اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ (ن) لیگ کے قائد نےآئندہ انتخابات میں سندھ سے قابلِ ذکر تعداد میں نشستوں کے حصول پر توجہ مرکوز کرلی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ گزشتہ تین ماہ میں سندھ کے چھ دورے کرچکے ہیں۔ میاں صاحب کی سندھ پر خصوصی توجہ کا بظاہر سبب تو یہاں آنے والے تباہ کن سیلاب کے متاثرین کی دلجوئی رہا ہے تاہم اپنے ان تمام دوروں کے دوران ان کی سرگرمیاں اور عوامی اجتماعات سے خطابات انتخابی مہم کا تاثر دیتے رہے ہیں۔
تاہم یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ میاں صاحب نے اپنی تمام تر توجہ اندرونِ سندھ پہ مرکوز کر رکھی ہے اور انہوں نے سندھ کے زیریں شہری علاقوں کراچی اور حیدرآباد - جنہیں حکومت کی اہم اتحادی اور جنوبی صوبہ سندھ کے شہری علاقوں میں اثر و رسوخ رکھنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے - میں تاحال کوئی سیاسی سرگرمی نہیں کی ہے۔
(ن) لیگ کی 'مائنس ایم کیو ایم' سیاست؟
مسلم لیگ (ن) کے قائد ماضی میں ایم کیو ایم کو کئی بار آڑے ہاتھوں لے چکے ہیں اور حکومت سازی کے لیے ایم کیو ایم کے ساتھ ممکنہ اتحادکو متحدہ کی قیادت کی جانب سے دہشت گردی کو ترک کرنے سے مشروط کرتے آئے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف سخت زبان کا استعمال ن لیگ کے قائد کا سندھی قوم پرست حلقوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے جو پیپلز پارٹی کی حکومت پر ایم کیو ایم کے اثر و رسوخ پہ خاصے نالاں ہیں۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ 1988ء کے بعد سے سندھ میں کوئی بھی صوبائی حکومت ایم کیو ایم کے بغیر تشکیل نہیں پاسکی ہے جس کے باعث متحدہ کو سندھ حکومت کا لازمی جزوِ ترکیبی سمجھا جانے لگا ہے۔
ایم کیو ایم نہ صرف 1988ء سے 1997ء تک پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی یکے بعد دیگرے چار حکومتوں میں 'جونیئر پارٹنر' کی حیثیت سے شریک رہی بلکہ 2002ء کے بعد سے سندھ میں چند مختصر وقفوں کے سوا مسلسل اقتدار میں چلی آرہی ہے۔
ایم کیو ایم کی اس سیاسی اہمیت اور سندھ پر اپنی جماعت کی کمزور سیاسی گرفت کے باوجود (ن) لیگ کے قائد کا دو ٹوک موقف ظاہر کرتا ہے کہ وہ مستقبل کی سیاسی صورت گری میں ایم کیو ایم کے ساتھ کسی اشتراک کے قائل نہیں۔ اپنے اس موقف کے باعث انہیں لامحالہ سندھ میں دیگر سیاسی قوتوں سے رجوع کرنا ہوگا۔
ممکنہ اتحادیوں کی تلاش
سندھ کو پیپلز پارٹی کا قلعہ قرار دیا جاتا ہے اور پی پی پی اس وقت بھی صوبے کی اکثریتی جماعت ہے جب کہ اس کی اتحادی متحدہ قومی موومنٹ کو سندھ کے شہری علاقوں کی بھرپور نمائندگی حاصل ہے۔ یہ دونوں جماعتیں پہلے ہی آئندہ انتخابات مشترکہ طور پر لڑنے کا اعلان کرچکی ہیں۔
اس صورت میں مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنے ممکنہ اتحادی چننے کے لیے محدود سیاسی اثرو رسوخ کی حامل چھوٹی سیاسی جماعتیں اور جاگیرداری سیاست دان ہی بچتے ہیں جن میں جتوئیوں کی نیشنل پیپلزپارٹی، پیر پگارا کی مسلم لیگ فنکشنل اور قوم پرست جماعتیں شامل ہیں۔
ان جماعتوں میں سے نیشنل پیپلز پارٹی صرف ضلع نوشہرو فیروز جبکہ فنکشنل لیگ سانگھڑ اور خیرپور کے اضلاع پر مکمل گرفت رکھتی ہے جبکہ قوم پرست جماعتیں سندھ بھر میں بکھری ہوئی قوت کے حامل ہیں جو انہیں آج تک کوئی انتخابی فتح نہیں دلا سکی ہے۔
قوم پرستوں میں مسلم لیگ (ن) کے ممکنہ اتحادی سردار ممتاز بھٹو کی سندھ نیشنل فرنٹ اور ڈاکٹر قادر مگسی کی سندھ ترقی پسند پارٹی ہوں گے جن سے میاں نواز شریف نے سندھ کے اپنے گزشتہ دوروں کے دوران ملاقاتیں بھی کی تھیں جب کہ ان جماعتوں نے میاں صاحب کے لاڑکانہ کے جلسے کی بھی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
یہ دونوں قوم پرست جماعتیں پی پی پی اور ایم کیو ایم کے حکومتی اتحاد کی اندرونِ سندھ میں سب سے بڑی ناقد سمجھی جاتی ہیں۔
ان جماعتوں کے علاوہ میاں صاحب کو ماضی میں (ق) لیگ سے منسلک رہنے والے بعض بڑے زمینداروں خصوصاً لاڑکانہ کے الطاف انڑ، دادو کے لیاقت جتوئی، گھوٹکی کے مہر اور ٹھٹھہ کے شیرازی برادران کی حمایت بھی حاصل ہوسکتی ہے تاہم اس کے لیے انہیں اپنا دل بڑا کرکے ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرنا پڑے گا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق میاں نواز شریف رواں ہفتے بھی سندھ کا دورہ کریں گے جس کے دوران وہ کراچی میں فنکشنل مسلم لیگ کے علیل سربراہ پیر صاحب پگارا کی عیادت کرنے کے علاوہ کئی اہم سیاسی ملاقاتیں بھی کریں گے۔
بعض اطلاعات کے مطابق نواز شریف کے متوقع ملاقاتیوں میں مہر، شیرازی، جتوئی اور مزاری خاندانوں کی سرکردہ شخصیات بھی شامل ہیں۔ جبکہ دو روز قبل لاڑکانہ میں ہونے والے جلسے کی تیاریوں کے سلسلے میں (ن) لیگ کے رہنمائوں نے ڈاکٹر قادر مگسی اور ممتاز بھٹو کے علاوہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ جلال محمود شاہ اور پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کی سربراہ غنویٰ بھٹو سے بھی ملاقاتیں کی تھیں جن میں لیگی رہنمائوں کے بقول آئندہ انتخابات میں مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کرنے پہ بھی غور کیا گیا۔
ان جماعتوں اور سیاسی خان دانوں کے ساتھ اتحاد کی صورت میں ن لیگ اندرونِ سندھ کے کئی اضلاع میں پیپلز پارٹی کو 'ٹف ٹائم' دے سکتی ہے۔
پرانے حلیف، نئے حریف؟
تاہم میاں صاحب کو اصل مسئلہ سندھ کے شہری علاقوں میں پیش آئے گا جہاں کی کلی نمائندگی کی دعویدار جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ وہ ہاتھ ملانے سے انکاری ہیں۔
کراچی اور حیدرآباد جیسے شہروں میں ایم کیو ایم کے مقابلے کے لیے جماعتِ اسلامی ایک واحد ایسی قوت ہے جس سے اتحاد کی صورت میں (ن) لیگ کوئی انتخابی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
تاہم جماعتِ اسلامی کے مرکزی رہنما گزشتہ کچھ عرصے کے دوران (ن) لیگ کے قائد کو کئی بار تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ ماضی کے ان حلیفوں کا دوبارہ مل بیٹھنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔
آئین کے مطابق پاکستان میں آئندہ عام انتخابات 2013ء میں ہونا ہیں۔ لیکن گزشتہ ایک ماہ سے جاری حزبِ مخالف کی تمام اہم جماعتوں کے جلسے جلوسوں اور سیاسی سرگرمیوں سے ایسا لگتا ہے کہ ملک میں طویل سیاسی خاموشی کےبعد ایک بار پھر انتخابی سیاست کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس سیاست میں کون کس کا ہاتھ تھامتا ہے اور کون کسے گلے لگاتا ہے، یہ آئندہ ایک، دو ماہ میں و اضح ہوجائے گا۔