پاکستان کے عام شہریوں کے لئے بدھ کی شام کسی حد تک اعصاب شکن تھی۔ ابھی چار ہی بجے تھے کہ ٹی وی پر یہ خبر آگئی کہ ”وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سیکریٹری دفاع ،لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈخالد نعیم لودھی کو برطرف کردیا ہے“ اس خبر کا آنا تھا کہ ٹی وی چینلز پر گویا ایک ایمرجنسی نافذ ہوگئی ۔۔۔کم و بیش تمام چینلز کا کہنا تھا کہ یہ’ اقدام غیر معمولی‘ ہے۔۔۔عسکری قیادت کی جانب سے تند و تیز رد عمل آسکتا ہے۔۔۔
اسی دوران یہ خبر بھی آگئی کہ عسکری قیادت نے وزیراعظم کی جانب سے آئین کی خلاف ورزی کے الزام کو سنگین قرار دے دیا ہے۔۔۔رہی سہی کسر اس خبر نے پوری کردی کہ ایک اعلیٰ فوجی افسرکو نئی اور اہم ذمے داری سونپ دی گئی ہے۔۔۔ پھر کیا تھا۔۔۔ خبروں کا تاثر ہی بدل گیا۔۔۔جتنے چینلز تھے ان کے نامی گرامی اوردلوں کو ہلادینے کا ’فن ‘جاننے والے اینکرز ٹی وی اسکرین پر تبصروں کی غرض سے بیٹھ گئے۔۔۔لمحہ بہ لمحہ۔۔۔تازہ بہ تازہ خبریں اور ان کے درجن بھر ’اینگلز‘سامنے آنے لگے ۔۔
ادھر عوام کا یہ حال تھا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے۔۔۔افواہوں کا بازار گرم ہوگیا۔۔۔کل کیا ہوگا۔۔۔شام کیسے گزرے گی؟ رات تک کہیں یہ نہ ہوجائے۔۔۔کہیں وہ نا ہوجائے۔۔۔دل انہی اندیشوں میں ڈوبنے لگا۔۔۔ٹی وی پر تجزیہ نگاروں کے تبصرے تھے تو عوام میں ان تبصروں پر مزید تبصرے۔۔۔
کئی گھنٹے تک یہی صورتحال رہی۔ کچھ لوگ دفاتر سے جلدی گھروں کو روانہ ہوگئے۔۔۔کچھ نے جمعرات کے لئے بدھ کی شام کو پلاننگ کرلی ۔ یہ اعصاب شکن معاملہ اس وقت ٹھنڈا پڑا جب آئی ایس پی آر کی طرف سے ٹی وی پر یہ بیان پڑھ کر سنایا گیا۔۔۔کہ حالات معمول کے مطابق ہیں اور عسکری قیادت کی طرف سے اگر کسی کو ترقی دی گئی یا فوجی افسروں کا ٹرانسفر کیا گیا ہے تو یہ معمول کی کارروائی ہے۔۔۔
کراچی کے مبصرین سے اس صورتحال پر تبصرے کے لئے جب وی او اے نے رابطہ کیا تو مبصرین نے اسے مجموعی طور پر” میڈیا ہا ئیپ“ قراردیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ہر ٹی وی چینل کو سب سے پہلے خبر بریک کرنے کا جنون سا ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر چھوٹی اور بڑی خبر کو ’بریکنگ نیوز‘ کے طور پر پیش کردیا جاتا ہے۔
کراچی کے ایک شہری انور حفیظ کا کہنا ہے کہ تھوڑے دنوں پہلے جب صدر زرداری علاج کی غرض سے دبئی گئے تھے تو تب بھی میڈیا نے خاصی جذبات انداز میں اسے کوریج دی تھی مگر بعد میں یہ ثابت ہوا کہ ایسا کچھ نہیں۔۔۔۔آج بھی وہی ہوا کہ ہوا کچھ بھی نہیں ۔۔۔اور ۔۔۔افواہیں تھیں کہ سر چڑھ کر بول رہی تھیں۔۔۔“