قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے کہا کہ اُن کی جماعت مسلم لیگ (ن) ہر احتساب کے لیے تیار ہے مگر ایف آئی اے کے ذریعے شفاف احتساب نہیں ہو سکتا۔
اسلام آباد —
پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں، قومی اسمبلی، میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ اُن کی سیاسی جماعت نوے کی دہائی میں آئی ایس آئی کی طرف سے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے الزامات کی چھان بین میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کریں گی۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما چوہدری نثار نے اتوار کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کا کوئی رکن یا رہنما ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوگا۔
’’یہ سپریم کورٹ کی بہت بڑی زیادتی ہے۔ ہم ہر احتساب کے لیے تیار ہیں مگر ایف آئی اے کے ذریعے شفاف احتساب نہیں ہوسکتا۔‘‘
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑنے پر ایف آئی اے کو تحقیقات کا اختیار دینے کے فیصلے کے خلاف مسلم لیگ (ن) سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرے گی۔
عدالت اعظمیٰ نے گزشتہ جمعہ کو حکومت کو حکم دیا تھا کہ فوج کے سابق سربراہ اسلم بیگ اور انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل اسد درانی کے خلاف سیاسی شخصیات میں رقوم تقسیم اور الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پر قانونی کارروائی کی جائے۔
عدالت نے حکومت کو یہ بھی ہدایت دی کہ ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات کر کے رقوم وصول کرنے والے سیاستدانوں سے بھی اس کا حساب لیا جائے۔ ان سیاست دانوں کے ناموں کی عدالت میں داخل کی گئی فہرست میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کا نام بھی شامل ہے جو اپنے خلاف الزام کی تردید کرچکے ہیں۔
پاک فضائیہ کے سابق سربراہ اصغر خان نے سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ وہ 1990ء میں آئی ایس آئی کے ذریعے پیپلز پارٹی کو انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کے لیے نواز شریف کی سربراہی میں اسلامی جمہوری اتحاد نامی سیاسی ٹولہ بنانے کی تحقیقات کر کے اس میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
یہ مقدمہ 1996ء میں دائر کیا گیا تھا مگر مختلف وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار رہا۔ تاہم چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس سال فروری میں اس کی دوبارہ سماعت شروع کی اور فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر گزشتہ جمعہ کو حتمی فیصلہ سنایا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما چوہدری نثار نے اتوار کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کا کوئی رکن یا رہنما ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوگا۔
’’یہ سپریم کورٹ کی بہت بڑی زیادتی ہے۔ ہم ہر احتساب کے لیے تیار ہیں مگر ایف آئی اے کے ذریعے شفاف احتساب نہیں ہوسکتا۔‘‘
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑنے پر ایف آئی اے کو تحقیقات کا اختیار دینے کے فیصلے کے خلاف مسلم لیگ (ن) سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرے گی۔
عدالت اعظمیٰ نے گزشتہ جمعہ کو حکومت کو حکم دیا تھا کہ فوج کے سابق سربراہ اسلم بیگ اور انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل اسد درانی کے خلاف سیاسی شخصیات میں رقوم تقسیم اور الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پر قانونی کارروائی کی جائے۔
عدالت نے حکومت کو یہ بھی ہدایت دی کہ ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات کر کے رقوم وصول کرنے والے سیاستدانوں سے بھی اس کا حساب لیا جائے۔ ان سیاست دانوں کے ناموں کی عدالت میں داخل کی گئی فہرست میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کا نام بھی شامل ہے جو اپنے خلاف الزام کی تردید کرچکے ہیں۔
پاک فضائیہ کے سابق سربراہ اصغر خان نے سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ وہ 1990ء میں آئی ایس آئی کے ذریعے پیپلز پارٹی کو انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کے لیے نواز شریف کی سربراہی میں اسلامی جمہوری اتحاد نامی سیاسی ٹولہ بنانے کی تحقیقات کر کے اس میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
یہ مقدمہ 1996ء میں دائر کیا گیا تھا مگر مختلف وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار رہا۔ تاہم چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس سال فروری میں اس کی دوبارہ سماعت شروع کی اور فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر گزشتہ جمعہ کو حتمی فیصلہ سنایا۔