وزیراعظم نواز شریف نے حکومت میں شریک جمعیت علمائے اسلام (ف) اور حرب اختلاف کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سے کہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ارکان کی رکنیت کالعدم قرار دینے سے متعلق اپنی قراردادیں واپس لیں۔
وزیر اعظم نے بدھ کو اس معاملے پر پارلیمانی رہنماؤں کا ایک اجلاس طلب کیا تھا۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور متحدہ قومی موومنٹ نے اجلاس میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔
بقول اُن کے، ’وزیراعظم نواز شریف نے تمام قائدین کی رائے سننے کے بعد، اور تمام لوگوں کے مشورے سے، ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام سے اپنی قرادادوں کو واپس لینے اور ان پر اصرار نہ کرنے کا کہا‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ دونوں جماعتوں کے قائدین نے اپنے خیالات کا اس معاملے پر کھل کر اظہار بھی کیا، اس کے آئینی قانونی اور سیاسی پہلوؤں کا ذکر کیا اور اس بات پر آمادگی کا اظہار بھی کیا کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں سے مشورے کے بعد اپنے فیصلے سے وزیراعظم کو آگاہ کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے رفقا کو یہ ذمہ داری بھی سونپی ہے کہ وہ ان دونوں جماعتوں سے رابطے میں رہیں اور انہیں اس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کریں، تاکہ پارلیمان میں تمام پارٹیوں بشمول پاکستان تحریک انصاف کو حاصل عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جا سکے۔
حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد تحریک انصاف کے پارلیمان میں واپس آنے کے فیصلے کے بعد یہ قراردادیں 22 اپریل کو جمع کرائی گئیں تھیں، مگر تاحال ان پر رائے شماری نہیں کی گئی۔
قراردادوں میں کہا گیا ہے کہ چونکہ تحریک انصاف کے 28 اراکین کئی ماہ تک قومی اسمبلی سے غیر حاضر رہے، لہٰذا آئین کی رو سے ان کی رکنیت کو کالعدم قرار دیا جائے۔
منگل کو جب ان قراردادوں کو رائے شماری کے لیے پیش کیا گیا تو سینیٹر اسحٰاق ڈار کی درخواست پر اسے ایک ہفتے کے لیے مؤخر کر دیا گیا۔
دریں اثنا پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کے چیئرمین سینیٹر اسحٰاق ڈار نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ کمیٹی نے بہت سا کام مکمل کر لیا ہے اور اس سلسلے میں آئین میں تیرہ ترامیم پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حق رائے دہی کا معاملہ بھی زیر غور ہے، جس پر متعلقہ سب کمیٹی جلد تجاویز پیش کرے گی۔
اسحٰاق ڈار کا کہنا تھا کہ اتفاق رائے سے منظور کی گئی تجاویز پر قانون کے مسودوں کی تیاری کا کام بھی شروع کر دیا گیا ہے، تاکہ انتخابی اصلاحات تاخیر کا شکار نہ ہوں۔