پاکستان کی قومی اسمبلی سے کئی ماہ تک غیر حاضر رہنے والے تحریک انصاف کے اراکین کی رکنیت ختم کرنے یا ’ڈی سیٹ‘ کرنے سے متعلق قراردادوں پر رائے شماری موخر کر دی گئی ہے۔
مرکز میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جمعیت علمائے اسلام (ف) اور حزب مخالف کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ یعنی ایم کیو ایم نے پارلیمان کے باہر احتجاجی دھرنے کے دوران قومی اسمبلی کے اجلاسوں سے مسلسل غیر حاضر رہنے والے تحریک انصاف کے اراکین کو ’ڈی سیٹ‘ کرنے کے لیے قرار دادیں ایوان میں جمع کرا رکھی ہیں۔
یہ قراردادیں تحریک انصاف کے اراکین کے قومی اسمبلی میں واپس آنے کے فیصلے کے بعد 22 اپریل کو پیش کی گئی تھیں، مگر اُن پر رائے شماری تاحال نہیں ہو سکی ہے۔
منگل ایوان میں اس بارے میں رائے شماری متوقع تھی لیکن وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار نے اسپیکر ایاز صادق سے استدعا کی کہ رائے شماری کا یہ عمل موخر کیا جائے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ حکومت اس مسئلے کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتی ہے۔
’’بجائے اس کے کہ ہم ایوان کو تقسیم کر کے آج ایک پھر نیا ماحول پیدا کر دیں، ہمیں چاہیئے کہ ہم اس مسئلے کو اتفاق رائے سے حل کریں اور انشا اللہ یہ حل ہو جائے گا۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان کی پارٹی پارلیمنٹ میں مثبت کردار ادا کرنا چاہتی ہے مگر ایوان ان کی رکنیت کو ختم کرنا مناسب سمجھتا ہے تو کر سکتا ہے۔
ایم کیو ایم اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کے اراکین نے آئین کے آرٹیکل 64 کے تحت پاکستان تحریک انصاف کے 28 اراکین کو رکنیت کو کالعدم قرار دینے سے متعلق قراردادیں پیش کی تھیں۔
آرٹیکل 64 کی شق دوم میں کہا گیا کہ جو رکن بغیر چھٹی کی درخواست کے اسمبلی سے مسلسل 40 دن غیر حاضر رہے گا اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔
پاکستان تحریک انصاف نے 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے معاملے پر گزشتہ سال اگست میں اعلان کیا تھا کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا بائیکاٹ کرے گی۔
اس دوران تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی نے استعفے بھی دے دیے تھے لیکن اُنھیں منظور نہیں کیا گیا اور بعد ازاں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات پر حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد عمران خان کی جماعت کے ممبران اسمبلی میں واپس آ گئے۔
تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان اتفاق رائے سے بننے والے عدالتی کمیشن کی طرف سے گزشتہ ہفتے ہی رپورٹ جاری کی گئی، جس میں یہ کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے بعض انتظامی بے ضابطگیوں کے باوجود مئی 2013ء کے انتخابات کے نتائج قانون کے مطابق تھے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم کیے گئے عدالتی کمیشن کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے عمران خان نے رپورٹ پر بعض تحفظات کا بھی اظہار کیا تھا جس سے ایک بار پھر تحریک انصاف اور حکمران جماعت کے رہنماؤں کے درمیان تلخ بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔