سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ’’یکطرفہ‘‘ عدالتی فیصلے کے بعد اب یہ دیکھنا ہے کہ آیا انتخاب میں حصہ لینا کوئی معنی رکھتا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر صدارتی انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی کے حکم کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں سے انتخابات کے ممکنہ بائیکاٹ سے متعلق رابطے تیز کردیے ہیں۔
صدارتی امیدوار رضا ربانی کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کے ایک وفد نے جمعرات کوعوامی نیشنل پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ق) اورقومی وطن پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔
سینیٹر رضا ربانی نے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سیاسی قائدین اور بالخصوص حزب اختلاف کے رہنماؤں سے ملاقات کا مقصد اس بات کو طے کرنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے ’’یک طرفہ‘‘ فیصلے کے بعد اب کیا صدارتی انتخاب میں حصہ لینا کیا کوئی معنی رکھتا ہے؟
’’میرے پاس صرف دو دن ہیں اور میں نے چاروں صوبوں میں جاکر ووٹروں سے ووٹ کی درخواست کرنی ہے۔ پاکستان ایک وفاق ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کل وفاقیت پر کاری ضرب لگی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اسلام آباد میں صرف پارلیمان ہی کا ووٹ ہے اور صوبوں کو نظر انداز کیا گیا۔‘‘
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی کا عدالت عظمی کے فیصلے کے بارے میں کہنا تھا۔
’’میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا سپریم کورٹ کو آئین کے تحت الیکشن شیڈول جاری کرنے کا اختیار ہے؟ اگر ہے تو پھر فخرو بھائی (الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم) بیچارے کو رہا کرو۔ اسے گھر بھیج دو۔‘‘
سپریم کورٹ نے بدھ کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کو صدارتی انتخابات 6 اگست کی بجائے 30 جولائی کو کرانے کا حکم دیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا درخواست میں موقف تھا کہ تاریخ کی تبدیلی سے ان کے بقول کم از کم 100 اراکین پارلیمان بھی ماہ رمضان میں مختلف مذہبی عبادات کے ساتھ ساتھ انتخابات میں شرکت کر پائیں گے۔
الیکشن کمیشن سے جاری ایک بیان میں وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شیڈول میں تبدیلی سپریم کورٹ کے حکم پر کی گئی اور اس فیصلے سے متاثرہ افراد یا سیاسی جماعتیں اس کے خلاف عدالت عظمیٰ سے ہی رجوع کریں۔
دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف نے مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں مذہبی سایسی جماعت جمیعت علماء اسلام کے وفد سے ملاقات کی جس میں مسلم لیگ کے صدارتی امیدوار ممنون حسین کے لئے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق نواز شریف نے وفد کو بتایا کہ سندھ جیسے چھوٹے صوبے سے ’’صدارتی امیدوار کے چناؤ کا مقصد وفاق کو مضبوط بنانا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جے یو آئی ایف کے ترجمان جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حمایت کرنے کا فیصلہ ان کی جماعت میں مشاورت کے بعد کیا جائے گا تاہم انہوں نے پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی طرف سے صدارتی انتخابات کے مجوزہ بائیکاٹ کی مخالفت کی۔
’’فیصلے پر تحفظات کا اظہار ان کا حق ہے لیکن میں سیاست میں عمل اور ردعمل کی بات کرتا ہوں۔ ان دونوں میں برابری ہونی چاہیے۔ (مگر) بائیکاٹ کا فیصلہ نا مناسب ہوگا۔۔۔ بہتر ہے کہ ہم اس مرحلے کو جمہوری انداز میں آگے بڑھائیں۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان کے منتحب کردہ امیدوار کی بھرپور انداز میں کامیابی کے لیے دیگر جماعتوں سے بھی رابطے کیے جائیں گے۔ عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخواہ کی حکمران اور قومی اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت ہے اس لیے مبصرین موجودہ سیاسی صورت حال میں ان کے فیصلے کو کافی اہمیت دیتے ہیں۔
حکمران پی ایم ایل این کو وفاق کےعلاوہ پنجاب اور بلوچستان میں اکثریت حاصل ہے اور اسی طرح قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ پی پی پی کو سینٹ اور صوبہ سندھ میں۔
صدارتی انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور سینیٹرز ووٹر ہوتے ہیں۔
صدارتی امیدوار رضا ربانی کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کے ایک وفد نے جمعرات کوعوامی نیشنل پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ق) اورقومی وطن پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔
سینیٹر رضا ربانی نے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سیاسی قائدین اور بالخصوص حزب اختلاف کے رہنماؤں سے ملاقات کا مقصد اس بات کو طے کرنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے ’’یک طرفہ‘‘ فیصلے کے بعد اب کیا صدارتی انتخاب میں حصہ لینا کیا کوئی معنی رکھتا ہے؟
’’میرے پاس صرف دو دن ہیں اور میں نے چاروں صوبوں میں جاکر ووٹروں سے ووٹ کی درخواست کرنی ہے۔ پاکستان ایک وفاق ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کل وفاقیت پر کاری ضرب لگی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اسلام آباد میں صرف پارلیمان ہی کا ووٹ ہے اور صوبوں کو نظر انداز کیا گیا۔‘‘
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی کا عدالت عظمی کے فیصلے کے بارے میں کہنا تھا۔
’’میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا سپریم کورٹ کو آئین کے تحت الیکشن شیڈول جاری کرنے کا اختیار ہے؟ اگر ہے تو پھر فخرو بھائی (الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم) بیچارے کو رہا کرو۔ اسے گھر بھیج دو۔‘‘
سپریم کورٹ نے بدھ کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کو صدارتی انتخابات 6 اگست کی بجائے 30 جولائی کو کرانے کا حکم دیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا درخواست میں موقف تھا کہ تاریخ کی تبدیلی سے ان کے بقول کم از کم 100 اراکین پارلیمان بھی ماہ رمضان میں مختلف مذہبی عبادات کے ساتھ ساتھ انتخابات میں شرکت کر پائیں گے۔
الیکشن کمیشن سے جاری ایک بیان میں وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شیڈول میں تبدیلی سپریم کورٹ کے حکم پر کی گئی اور اس فیصلے سے متاثرہ افراد یا سیاسی جماعتیں اس کے خلاف عدالت عظمیٰ سے ہی رجوع کریں۔
دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف نے مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں مذہبی سایسی جماعت جمیعت علماء اسلام کے وفد سے ملاقات کی جس میں مسلم لیگ کے صدارتی امیدوار ممنون حسین کے لئے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق نواز شریف نے وفد کو بتایا کہ سندھ جیسے چھوٹے صوبے سے ’’صدارتی امیدوار کے چناؤ کا مقصد وفاق کو مضبوط بنانا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جے یو آئی ایف کے ترجمان جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حمایت کرنے کا فیصلہ ان کی جماعت میں مشاورت کے بعد کیا جائے گا تاہم انہوں نے پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی طرف سے صدارتی انتخابات کے مجوزہ بائیکاٹ کی مخالفت کی۔
’’فیصلے پر تحفظات کا اظہار ان کا حق ہے لیکن میں سیاست میں عمل اور ردعمل کی بات کرتا ہوں۔ ان دونوں میں برابری ہونی چاہیے۔ (مگر) بائیکاٹ کا فیصلہ نا مناسب ہوگا۔۔۔ بہتر ہے کہ ہم اس مرحلے کو جمہوری انداز میں آگے بڑھائیں۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان کے منتحب کردہ امیدوار کی بھرپور انداز میں کامیابی کے لیے دیگر جماعتوں سے بھی رابطے کیے جائیں گے۔ عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخواہ کی حکمران اور قومی اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت ہے اس لیے مبصرین موجودہ سیاسی صورت حال میں ان کے فیصلے کو کافی اہمیت دیتے ہیں۔
حکمران پی ایم ایل این کو وفاق کےعلاوہ پنجاب اور بلوچستان میں اکثریت حاصل ہے اور اسی طرح قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ پی پی پی کو سینٹ اور صوبہ سندھ میں۔
صدارتی انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور سینیٹرز ووٹر ہوتے ہیں۔