پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ممتاز قادری کی سزائے موت پر اتوار کو حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی ہیں جس کے بعد حکومت نے اسلام آباد میں فوج طلب کرلی ہے۔
فوج کے ترجمان اور ڈائریکٹر جنرل 'انٹر سروسز پبلک ریلیشنز' (آئی ایس پی آر) میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت نے اسلام آباد میں صورتِ حال پر قابو پانے اور ریڈ زون کی حفاظت کے لیے فوجی دستے طلب کر لیے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسلام آباد میں موجود وائس آف امریکہ کے نمائندوں کے مطابق شہر کی سڑکوں پر فوجی گاڑیاں گشت کر رہی ہیں۔
ممتاز قادری کو پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے جرم میں گزشتہ ماہ پھانسی دی گئی تھی۔
اتوار کو اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں ممتاز قادری کے چہلم کے سلسلے میں ایک بڑا اجتماع ہوا جس کے بعد شرکا نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا اور انتظامیہ کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف جانے والی مرکزی شاہراہ پر پہنچ گئے۔
صورتحال اس وقت سنگین ہو گئی جب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں نے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکا تو مشتعل افراد کے ساتھ ان کی جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
مظاہرین نے اسلام آباد میں میٹرو بس کے کئی اسٹیشنوں پر توڑ پھوڑ کی ہے جب کہ کئی گاڑیوں کو بھی نذرِ آتش کردیا ہے۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی اور اس دوران فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس جس علاقے میں واقع ہے اسے ریڈ زون کہا جاتا ہے جہاں غیر ملکی سفارت خانوں سمیت اہم سرکاری دفاتر واقع ہیں۔
کئی گھنٹوں تک مظاہرین راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر رکے رہے لیکن اتوار کی شام وہ اسلام آباد میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
ممتاز قادری گورنر سلمان تاثیر کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں میں شامل تھے اور جنوری 2011ء میں انھوں نے اسلام آباد میں گورنر کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ مجرم نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے گورنر کو مبینہ طور پر توہین رسالت کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتارا۔
رواں سال سپریم کورٹ کی طرف سے ممتاز قادری کی سزائے موت کو برقرار رکھے جانے کے فیصلے اور پھر اس پر عملدرآمد پر بھی بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کی گئی تھی۔
سلمان تاثیر نے توہین مذہب کے الزام میں جیل میں قید ایک مسیحی خاتون سے ملاقات کے بعد بیان دیا تھا کہ ملک میں توہین مذہب کے قانون کا لوگ غلط استعمال کرتے ہیں لہذا اس میں ترمیم کے لیے نظر ثانی کی جانی چاہیئے۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک حساس معاملہ رہا ہے اور ایک ایسے ہی بیان پر 2011ء میں اس وقت کے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور و بین المذاہب ہم آہنگی شہباز بھٹی کو قتل کر دیا گیا تھا۔
دریں اثناء وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے مبلغ جنید جمشید کو اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر نامعلوم افراد کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی مذمت کی ہے۔
جنید جمشید کو ہفتے کو دیر گئے ہوائی اڈے پر نامعلوم افراد نے یہ کہہ کر زدو کوب کیا کہ وہ مبینہ طور پر توہین مذہب کے مرتکب ہوئے ہیں۔
جنید نے اس واقعے کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست بھی جمع کروا دی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ اسلام مذہبی رواداری اور ایک دوسرے کے احترام کا درس دیتا ہے اور اس کے پیروکاروں کو اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔