پاکستان نے میانمار کی روہنگیا نسل کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اپنی تشویش اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس برادری کے خلاف تشدد بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کو میانمار اپنا شہری تصور نہیں کرتا اور ایک عرصے سے وہاں کی مقامی بدھ آبادی اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے اس برادری کے خلاف مبینہ طور پر قتل و غارت گری اور امتیازی سلوک کی خبریں سامنے آتی رہیں۔
لیکن حالیہ ہفتوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے نام پر سکیورٹی فورسز کی کارروائی کا نشانہ بننے والے ہزاروں روہنگیا خاندان میانمار سے بنگلہ دیش نقل مکانی پر مجبور ہوئے جب کہ ایسے واقعات میں سیکڑوں افراد کے ہلاک ہونے کا بھی بتایا گیا۔
پاکستان میں مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے اس ضمن میں اقدام کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
ہفتہ کو دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے پاکستان کے لیے میانمار کے سفیر یو ون مینٹ کو طلب کر کے انھیں روہنگیا مسلمانوں سے متعلق روا رکھے جانے والے سلوک پر اپنے ملک کی تشویش سے آگاہ کیا۔
سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ میانمار کی حکومت تشدد کے واقعات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکنے اور روہنگیا برادری کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدام کو یقینی بنائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کے دیرپا حل کے لیے کوفی عنان کمیشن کی وضع کردہ سفارشات پر فوری عمل کیا جائے جس میں تشدد کو روکنے، امن کو برقرار رکھنے، مصالحت کو فروغ دینے اور روہنگیا آبادی کی شہریت جیسے معاملات پر بات کی گئی ہے۔
تہمینہ جنجوعہ نے مطالبہ کیا کہ میانمار تشدد کے حالیہ واقعات کی تحقیقات کر کے اس کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
بیان کے مطابق میانمار کے سفیر نے یقین دلایا کہ وہ پاکستان کے تحفظات سے اپنی حکومت کو آگاہ کریں گے۔