کمیشن کے سربراہ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کمیشن ایک ماہ میں اپنی رپورٹ مرتب کرکے اسے پارلیمان میں پیش کرے گا۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کو تقسیم کرکے نئے صوبوں کی تشکیل کے لیے قائم پارلیمانی کمیشن کے منگل کو اسلام آباد میں ہونے والے افتتاحی اجلاس میں حکمران پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کو اس کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔
اس 14 رکنی کمیشن کے قیام کا اعلان گزشتہ ماہ کیا گیا تھا، جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے چھ، چھ اراکین اور پنجاب اسمبلی کے دو ممبران شامل ہوں گے۔
مگر شرح نمائندگی اور ممبران کی نامزدگی سے متعلق تحفظات کے باعث کمیشن کی حیثیت روز اول سے متنازع رہی ہے، اور اسی وجہ سے اس کے پہلے اجلاس میں اپوزیشن مسلم لیگ (ن) نے احتجاجاً شرکت نہیں کی۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو اس کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ کارروائی کے دوران پنجاب میں نئے صوبے کی تشکیل پر ابتدائی بات چیت اور اس مطالبے کے حق میں صوبائی اور قومی اسمبلی میں منظور کی گئی قراردادوں کا جائزہ لیا گیا۔
’’آج فیصلہ کیا گیا کہ کمیشن مسلم لیگ (ن) کے اراکین سے گزارش کرے کہ وہ بھی کمیشن میں تشریف لائیں تاکہ اتفاق رائے سے ان قراردادوں کو جو پنجاب اور قومی اسمبلی نے منظور کی ہیں ان کو آگے بڑھایا جا سکے۔‘‘
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کمیشن ایک ماہ میں اپنی رپورٹ مرتب کرکے اسے پارلیمان میں پیش کرے گا۔ اُنھوں نے بتایا کہ کمیشن کا آئندہ اجلاس بدھ کو ہوگا۔
اُدھر پنجاب اسمبلی میں حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے نئے صوبوں کے لیے قائم کمیشن میں پنجاب کی طرف سے اراکین کے نام نہ بھجوانے پر شدید احتجاج کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال جلد سے جلد کمیشن کے لیے دو اراکین صوبائی اسمبلی کے نام تجویز کریں تاکہ کمیشن کی تشکیل مکمل ہو سکے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنماء اور پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ نے اپنی جماعت کا موقف دہراتے ہوئے ایسے کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے جسے پنجاب کے علاوہ ملک میں دیگر صوبوں کی تشکیل پر غور کا اختیار بھی حاصل ہو۔
’’قومی کمیشن بنایا جائے جو پاکستان میں جہاں صوبوں کی ضرورت ہے، (چاہے) وہ جنوبی پنجاب، فاٹا، بلوچستان یا سندھ ہو، اس پر بھی غور کیا جا سکے۔ اس کمیشن کا قیام مستقل ہونا چاہیئے۔‘‘
پارلیمانی کمیشن کے چیئرمین فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ نئے صوبے کے قیام کے حق میں قرارداد چونکہ پنجاب اسمبلی ہی سے منظور ہوئی تھی اس لیے موجودہ کمیشن کا دائرہ اختیار صرف اسی صوبے تک محدود ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائدین انتظامی بنیادوں پر پنجاب میں نئے صوبوں کی حمایت کرتے آئے ہیں، مگر اُن کا الزام ہے کہ پیپلز پارٹی سیاسی مفادات کی خاطر جنوبی پنجاب نامی مجوزہ صوبے کی تشکیل چاہتی ہے۔
اس 14 رکنی کمیشن کے قیام کا اعلان گزشتہ ماہ کیا گیا تھا، جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے چھ، چھ اراکین اور پنجاب اسمبلی کے دو ممبران شامل ہوں گے۔
مگر شرح نمائندگی اور ممبران کی نامزدگی سے متعلق تحفظات کے باعث کمیشن کی حیثیت روز اول سے متنازع رہی ہے، اور اسی وجہ سے اس کے پہلے اجلاس میں اپوزیشن مسلم لیگ (ن) نے احتجاجاً شرکت نہیں کی۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو اس کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ کارروائی کے دوران پنجاب میں نئے صوبے کی تشکیل پر ابتدائی بات چیت اور اس مطالبے کے حق میں صوبائی اور قومی اسمبلی میں منظور کی گئی قراردادوں کا جائزہ لیا گیا۔
’’آج فیصلہ کیا گیا کہ کمیشن مسلم لیگ (ن) کے اراکین سے گزارش کرے کہ وہ بھی کمیشن میں تشریف لائیں تاکہ اتفاق رائے سے ان قراردادوں کو جو پنجاب اور قومی اسمبلی نے منظور کی ہیں ان کو آگے بڑھایا جا سکے۔‘‘
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کمیشن ایک ماہ میں اپنی رپورٹ مرتب کرکے اسے پارلیمان میں پیش کرے گا۔ اُنھوں نے بتایا کہ کمیشن کا آئندہ اجلاس بدھ کو ہوگا۔
اُدھر پنجاب اسمبلی میں حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے نئے صوبوں کے لیے قائم کمیشن میں پنجاب کی طرف سے اراکین کے نام نہ بھجوانے پر شدید احتجاج کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال جلد سے جلد کمیشن کے لیے دو اراکین صوبائی اسمبلی کے نام تجویز کریں تاکہ کمیشن کی تشکیل مکمل ہو سکے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنماء اور پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ نے اپنی جماعت کا موقف دہراتے ہوئے ایسے کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے جسے پنجاب کے علاوہ ملک میں دیگر صوبوں کی تشکیل پر غور کا اختیار بھی حاصل ہو۔
’’قومی کمیشن بنایا جائے جو پاکستان میں جہاں صوبوں کی ضرورت ہے، (چاہے) وہ جنوبی پنجاب، فاٹا، بلوچستان یا سندھ ہو، اس پر بھی غور کیا جا سکے۔ اس کمیشن کا قیام مستقل ہونا چاہیئے۔‘‘
پارلیمانی کمیشن کے چیئرمین فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ نئے صوبے کے قیام کے حق میں قرارداد چونکہ پنجاب اسمبلی ہی سے منظور ہوئی تھی اس لیے موجودہ کمیشن کا دائرہ اختیار صرف اسی صوبے تک محدود ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائدین انتظامی بنیادوں پر پنجاب میں نئے صوبوں کی حمایت کرتے آئے ہیں، مگر اُن کا الزام ہے کہ پیپلز پارٹی سیاسی مفادات کی خاطر جنوبی پنجاب نامی مجوزہ صوبے کی تشکیل چاہتی ہے۔