پاکستان میں نئے صوبوں کی بحث ایک مرتبہ پھر زور پکڑ رہی ہے ۔ صدر کی ہدایت پر پنجاب کی تقسیم کیلئے تشکیل دیے گئے کمیشن کا پہلا اجلاس 28 اگست کوطلب کر لیا گیا ہے ۔
سیاسی ایوانوں میں شب و روز بسر کرنے والے تجزیہ کار اس معاملے پر مستقبل قریب میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان تیز ترین سیاسی ہلچل دیکھ رہے ہیں ۔ ان تجزیہ نگاروں میں مذکورہ دونوں جماعتوں کے ہی کارکن شامل نہیں بلکہ جماعت اسلامی ، عوامی نیشنل پارٹی اورپاکستان تحریک انصاف کے کارکنان بھی شامل ہیں۔
گلشن جمال کراچی کے رہائشی اور جماعت اسلامی کے سرگرم سیاسی کارکن نسیم اختر نئے صوبوں کی تقسیم کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال پرکہتے ہیں ، ’پیپلزپارٹی کی قیادت نے آئندہ انتخابات کیلئے شروع ہی سے جنوبی پنجاب پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے کیونکہ اس کی قیادت جانتی ہے کہ اگرملک مضبوط اور بااثر حکومت کا قیام عمل میں لانا ہے تو اس کا راستہ پنجاب سے ہی ہو کر گزرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے وہاں عوام کے دل میں جگہ بنانے اور مسلم لیگ ن کو کمزور کرنے کیلئے موجودہ دور حکومت میں ہی نئے صوبوں کے قیام کا اعلان کیا ہے ‘۔
پشاورسے تعلق رکھنے والے اور کراچی میں مقیم اے این پی کے ہمدرد ناطق آفریدی کا کہنا ہے، ’جس صورتحال کا نسیم اختر نے ذکر کیا ہے اس صورتحال میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں ۔ اول یہ کہ کیا مسلم لیگ ن صرف پنجاب کی تقسیم کے حق میں ہے ؟ دوم ،کیا وہ صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر تشکیل دیے جانے والے چودہ رکنی پارلیمانی کمیشن کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد فراہم کرے گی ؟میرے خیال میں پنجاب کی تقسیم کا واضح مطلب ہے مسلم لیگ ن کے ووٹوں کی تقسیم ،لیکن اب یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ن لیگ اس کیلئے تیار ہے ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ مسلم لیگ ن تاخیری حربے استعمال کر کے آئندہ انتخابات تک کمیشن کے قیام میں روڑے اٹکا رہی ہے ۔‘
’مذکورہ سوالات کے جوابات چند روز قبل مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور قائد حزب اختلاف چوہدری نثار کے اس بیان میں ملتے ہیں جس میں انہوں نے کمیشن پر کھل کر تحفظات کا اظہار کیا تھا‘ ۔ یہ کہنا ہے حاصل پور کے میاں محمد زاہد کا جو تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور کراچی میں بزنس کرتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں،’ چوہدری نثار کو سب سے پہلے یہ شکوہ تھا کہ ان کی جماعت کو کمیشن کے قیام سے متعلق اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔ مسلم لیگ ن پنجاب کی سب سے بڑی جماعت ہے لہذا اسے پچاس فیصد نمائندگی دی جائے ۔اس کیلئے کمیشن کے مینڈیٹ میں ہزارہ اور فاٹا کے نئے صوبوں کو بھی شامل کیا جائے۔‘
واضح رہے کہ صوبوں کی تشکیل کے لئے بنائے گئے کمیشن میں ایوان بالا اور زیریں سے چھ ، چھ ارکان اور پنجاب اسمبلی سے دو ارکان لئے گئے ہیں ۔ پنجاب اسمبلی کے دو ارکان کے نام تاحال موصول نہیں ہو سکے جس کا مطلب ہے کہ کمیشن ابھی نامکمل ہے حالانکہ28 اگست کو ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں کمیشن کے چیئرمین کا تقرر اور اس کے رولز طے کیے جائیں گے ۔تاہم اگر کمیشن مکمل نہ ہو سکا تو پھر کیا ہو گا یہ واضح نہیں ۔
پیپلزپارٹی کی جانب سے سرائیکی علاقے سےتعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اگر چہ عدالتی حکم کے بعد پانچ سال تک انتخابات میں حصہ نہ لینے کے پابند ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئے صوبے کے معاملے پر وہ سیاست میں پوری طرح ’اِن‘ ہیں ۔ نئے صوبوں کے قیام کے بارے میں وہ ن لیگ پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ نواز لیگ نے معاملہ الجھانے کیلئے پنجاب اسمبلی سے دو نئے صوبوں کی قرارداد تو منظور کروا دی تھی لیکن وہ نہیں جانتے کہ پیپلزپارٹی اس معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہے ۔ یوسف رضا گیلانی اکثر جلسوں ، ریلیوں اور میڈیا گفتگو میں یہ باور کروا رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن نئے صوبوں کے معاملے پروقت ضائع کر رہی ہے اور اس معاملے میں رکاوٹ بن رہی ہے ۔
تجزیہ کار اس تناظر میں دونوں جماعتوں کے درمیان مستقبل قریب میں زبردست سیاسی ہلچل دیکھ رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کمیشن تشکیل پا گیا اور موجودہ حکومت میں کسی نتیجے پر پہنچ جاتی ہے تو اس کا پیپلزپارٹی کو بھر پور فائدہ ہو گااور وہ اس بات کا کریڈیٹ لے کر آنے والے انتخابات میں عوام کی بھر پور توجہ حاصل کر سکتی ہے لہٰذا مسلم لیگ ن یہ کبھی نہیں چاہے گی۔
سیاسی ایوانوں میں شب و روز بسر کرنے والے تجزیہ کار اس معاملے پر مستقبل قریب میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان تیز ترین سیاسی ہلچل دیکھ رہے ہیں ۔ ان تجزیہ نگاروں میں مذکورہ دونوں جماعتوں کے ہی کارکن شامل نہیں بلکہ جماعت اسلامی ، عوامی نیشنل پارٹی اورپاکستان تحریک انصاف کے کارکنان بھی شامل ہیں۔
گلشن جمال کراچی کے رہائشی اور جماعت اسلامی کے سرگرم سیاسی کارکن نسیم اختر نئے صوبوں کی تقسیم کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال پرکہتے ہیں ، ’پیپلزپارٹی کی قیادت نے آئندہ انتخابات کیلئے شروع ہی سے جنوبی پنجاب پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے کیونکہ اس کی قیادت جانتی ہے کہ اگرملک مضبوط اور بااثر حکومت کا قیام عمل میں لانا ہے تو اس کا راستہ پنجاب سے ہی ہو کر گزرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے وہاں عوام کے دل میں جگہ بنانے اور مسلم لیگ ن کو کمزور کرنے کیلئے موجودہ دور حکومت میں ہی نئے صوبوں کے قیام کا اعلان کیا ہے ‘۔
پشاورسے تعلق رکھنے والے اور کراچی میں مقیم اے این پی کے ہمدرد ناطق آفریدی کا کہنا ہے، ’جس صورتحال کا نسیم اختر نے ذکر کیا ہے اس صورتحال میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں ۔ اول یہ کہ کیا مسلم لیگ ن صرف پنجاب کی تقسیم کے حق میں ہے ؟ دوم ،کیا وہ صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر تشکیل دیے جانے والے چودہ رکنی پارلیمانی کمیشن کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد فراہم کرے گی ؟میرے خیال میں پنجاب کی تقسیم کا واضح مطلب ہے مسلم لیگ ن کے ووٹوں کی تقسیم ،لیکن اب یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ن لیگ اس کیلئے تیار ہے ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ مسلم لیگ ن تاخیری حربے استعمال کر کے آئندہ انتخابات تک کمیشن کے قیام میں روڑے اٹکا رہی ہے ۔‘
’مذکورہ سوالات کے جوابات چند روز قبل مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور قائد حزب اختلاف چوہدری نثار کے اس بیان میں ملتے ہیں جس میں انہوں نے کمیشن پر کھل کر تحفظات کا اظہار کیا تھا‘ ۔ یہ کہنا ہے حاصل پور کے میاں محمد زاہد کا جو تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور کراچی میں بزنس کرتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں،’ چوہدری نثار کو سب سے پہلے یہ شکوہ تھا کہ ان کی جماعت کو کمیشن کے قیام سے متعلق اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔ مسلم لیگ ن پنجاب کی سب سے بڑی جماعت ہے لہذا اسے پچاس فیصد نمائندگی دی جائے ۔اس کیلئے کمیشن کے مینڈیٹ میں ہزارہ اور فاٹا کے نئے صوبوں کو بھی شامل کیا جائے۔‘
واضح رہے کہ صوبوں کی تشکیل کے لئے بنائے گئے کمیشن میں ایوان بالا اور زیریں سے چھ ، چھ ارکان اور پنجاب اسمبلی سے دو ارکان لئے گئے ہیں ۔ پنجاب اسمبلی کے دو ارکان کے نام تاحال موصول نہیں ہو سکے جس کا مطلب ہے کہ کمیشن ابھی نامکمل ہے حالانکہ28 اگست کو ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں کمیشن کے چیئرمین کا تقرر اور اس کے رولز طے کیے جائیں گے ۔تاہم اگر کمیشن مکمل نہ ہو سکا تو پھر کیا ہو گا یہ واضح نہیں ۔
پیپلزپارٹی کی جانب سے سرائیکی علاقے سےتعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اگر چہ عدالتی حکم کے بعد پانچ سال تک انتخابات میں حصہ نہ لینے کے پابند ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئے صوبے کے معاملے پر وہ سیاست میں پوری طرح ’اِن‘ ہیں ۔ نئے صوبوں کے قیام کے بارے میں وہ ن لیگ پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ نواز لیگ نے معاملہ الجھانے کیلئے پنجاب اسمبلی سے دو نئے صوبوں کی قرارداد تو منظور کروا دی تھی لیکن وہ نہیں جانتے کہ پیپلزپارٹی اس معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہے ۔ یوسف رضا گیلانی اکثر جلسوں ، ریلیوں اور میڈیا گفتگو میں یہ باور کروا رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن نئے صوبوں کے معاملے پروقت ضائع کر رہی ہے اور اس معاملے میں رکاوٹ بن رہی ہے ۔
تجزیہ کار اس تناظر میں دونوں جماعتوں کے درمیان مستقبل قریب میں زبردست سیاسی ہلچل دیکھ رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کمیشن تشکیل پا گیا اور موجودہ حکومت میں کسی نتیجے پر پہنچ جاتی ہے تو اس کا پیپلزپارٹی کو بھر پور فائدہ ہو گااور وہ اس بات کا کریڈیٹ لے کر آنے والے انتخابات میں عوام کی بھر پور توجہ حاصل کر سکتی ہے لہٰذا مسلم لیگ ن یہ کبھی نہیں چاہے گی۔