پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے رینجرز کو اختیارات دینے کی باقاعدہ منظوری دے دی گئی ہے۔
اس بارے میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی زیر قیادت بدھ کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، جس میں وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے قومی سلامتی لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر خان جنجوعہ کے علاوہ وفاق اور پنجاب کے متعلقہ اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی۔
وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے ابتدائی طور پر رینجرز کو 60 روز کے لیے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت یہ اختیارات دیئے گئے ہیں۔
لیکن پنجاب حکومت کے عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ اس مدت میں اس وقت تک توسیع کی جاتی رہے گی، جب کہ تک رینجرز کی صوبے میں ضرورت ہو گی۔
ملک میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد گزشتہ ہفتے صوبہ پنجاب میں سلامتی کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ’ایپکس کمیٹی‘ کے ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پنجاب میں رینجرز کو بلایا جائے۔
واضح رہے کہ سلامتی کی صورت حال پر نظر رکھنے اور اس بارے میں اقدامات کے لیے چاروں صوبوں میں ’ایپکس کمیٹیاں‘ قائم ہیں جن میں وزیراعلیٰ اور کور کمانڈز سمیت تمام متعلقہ اداروں کے اعلیٰ عہدیدار شامل ہوتے ہیں۔
پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ اپنے حالیہ بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ رینجرز کو ’سرچ اور گرفتار‘ کرنے کے اختیارات حاصل ہوں گے، تاہم اُن علاقوں کا تعین ’ایپکس کمیٹی‘ کرے گی جہاں رینجرز کارروائیاں کر سکیں گے۔
پاکستان میں مختلف حلقوں بشمول حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے صوبہ پنجاب، خاص طور پر اس صوبے کے جنوبی اضلاع میں رینجرز کی کارروائی کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں۔
ملک میں حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ رینجرز کی پنجاب میں ضرورت ہے۔
’’رینجرز کا آنا اس لیے ضروری ہے، کیوں کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ مسلح گروہوں کو پاکستان میں کہیں بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اب ہمیں پتہ ہے کہ پنجاب میں مسلح گروہ ہیں۔‘‘
پنجاب حکومت کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ صوبے میں جہاں کہیں بھی شدت پسندوں کی موجودگی کا علم ہوتا ہے، اُن کے خلاف بھرپور کارروائی کی جاتی ہے۔
تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل (ریٹائڑڈ) امجد شعیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ کیا صوبائی حکومت کی طرف سے رینجزر کو شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے مناسب اختیارات دیئے جائیں گے یا نہیں۔
’’یہ اس بات پر منحصر ہو گا کہ پنجاب حکومت اُن (رینجرز) کو اختیارات کیا دیتی ہے۔۔۔ کیا وہ اپنی معلومات کی بنیاد پر آپریشن کر سکیں گے۔۔۔ اگر رینجرز کو اپنے طور پر کارروائی، ایف آئی آر درج کرنے اور تحقیقات کی اجازت ہوئی تو پھر تو بہت فرق پڑے گا۔۔۔۔ لیکن رینجرز کے ساتھ اگر اُسی طرح کا رویہ رکھا گیا جو کہ سندھ میں رکھا جا رہا ہے تو پھر میرے خیال میں بہت فرق نہیں پڑے گا۔‘‘
پنجاب کے وزیرقانون رانا ثنا اللہ واضح کر چکے ہیں کہ پنجاب میں مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف مشترکہ کارروائیاں ہوں گی جن میں انٹیلی جنس ایجنساں، محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اور رینجرز شامل ہوں گے۔
پاکستان میں مختلف حلقوں بشمول حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے صوبہ پنجاب، خاص طور پر اس صوبے کے جنوبی اضلاع میں رینجرز کی کارروائی کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ملک میں دہشت گرد حملوں کی نئی لہر کے بعد ایک بار پھر سلامتی کی صورت کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جانے لگا اور حکومت نے ملک بھر میں شدت پسندوں کے خلاف بھرپور ’کریک ڈاؤن‘ کا فیصلہ کیا اور اب تک پاکستان کے مختلف علاقوں میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی گئی چھاپہ مار کارروائیوں میں فوج کے مطابق 100 سے زائد شدت پسند مارے جا چکے ہیں۔
جب کہ سینکڑوں مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔