سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو صدر کو خط لکھنے پر دائر ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل نے بری الذمہ قرار دے دیا ہے جس کے بعد ان کے خلاف دائر یہ ریفرنس داخل دفتر کر دیا گیا ہے۔
یہ ریفرنس لاہور کے ایک وکیل وحید شہزاد بٹ کی سپریم جوڈیشل کونسل کو شکایت پر دائر کیا گیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے صدر مملکت کو خط لکھ کر اور اسے میڈیا میں لیک کر کے رائے عامہ کو سپریم جوڈیشل کونسل اور صدر مملکت کے خلاف کرنے کی کوشش کی ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق وحید شہزاد بٹ نامی وکیل نے 12 جون کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف شکایت ارسال کی تھی۔
شکایت ملنے پر کونسل کے رکن جسٹس عظمت سعید سے رائے لی گئی تھی۔ جسٹس عظمت سعید کی رائے کے بعد معاملہ 12 جولائی کو کونسل کے سامنے رکھا گیا جس پر کونسل نے 12 جولائی کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔
بیان کے مطابق جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے صدر کو دو خطوط لکھنا تسلیم کیا، لیکن انہوں نے یہ خطوط میڈیا کو جاری کرنے سے انکار کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شوکاز پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ شو کاز جاری کرنے کے لیے مناسب مواد نہیں تھا۔ سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل شوکاز جاری کرنے کے مجاز نہیں تھے۔ اس کے علاوہ کونسل کی جانب سے موجودہ شکایت کو اپنی باری سے پہلے سننا درست نہیں۔
فائز عیسیٰ کے مطابق معاملے پر میری پوری فیملی دباوٴ کا شکار تھی۔ جواب داخل کرنے کے لیے شکایت کی کاپی حاصل کرنا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ کے جج کی جانب سے صدر کو خط لکھنا مس کنڈکٹ کے زمرے میں نہیں آتا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس سے ملاقات میں قاضی فائز عیسیٰ کو خط نہ لکھنے کا کوئی مشورہ نہیں دیا۔ ریفرنس موصول ہونے پر سیکرٹری کونسل نے چیف جسٹس کو آگاہ کیا۔ سیکرٹری کونسل نے کونسل کے حکم کے تحت ہی شوکاز جاری کیا۔ چیف جسٹس اور جسٹس قاضی فائز عیسی کے درمیان ہونے والی گفتگو سے واضح ہے کہ معزز جج کو ریفرنس کی معلومات تھیں۔ براہ راست معلومات ہونے کے باوجود خط لکھنے پر کوئی قیاس آرائی نہیں کر سکتے۔
کونسل کا کہنا ہے کہ خطوط میں وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کو بلا ضرورت گھسیٹنا اچھا عمل نہیں۔ وزیر اعظم، ان کے اہل خانہ کو خط میں شامل کرنا، خطوط میں غلط وجوہات لکھنے کی وجہ سے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا۔
کونسل کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز کی جانب سے باری کے خلاف ریفرنس سننے کا موقف درست نہیں۔ آنے والے تمام ریفرنسز کو فوری کوڈ کے تحت پرکھا جاتا ہے۔ کونسل میں اس وقت صرف چھ کے قریب شکایات زیر التوا ہیں۔ زیر التواء شکایات پر بھی قانون کے مطابق کاروائی جاری ہے۔ ریفرنس چلانے سے متعلق طریقہ کار کا فیصلہ کونسل نے کرنا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک ریفرنس میں اپنائے گئے طریقہ کار دیگر ریفرنسز میں اپنانے کا نہیں کہہ سکتے۔
کونسل کے بیان کے مطابق کونسل میں شکایات کنندہ جج کی جانب سے خطوط پبلک کرنے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔ جج کی جانب سے خطوط ذاتی طور پر صدر مملکت کو لکھے گئے۔ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ جسٹس عیسیٰ اس وقت اپنے سسر اور بیٹی کی میڈیکل صورت حال کے باعث دباؤ کا شکار تھے۔ ریفرنس کا مواد دیکھنے کے بعد چیف جسٹس نے اسے معزز جج صاحب کو بتانے کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس اور جسٹس قاضی فائز عیسی کے درمیان ہونے والی گفتگو سے واضح ہے معزز جج کو ریفرنس کی معلومات تھیں، براہ راست معلومات ہونے کے باوجود خط لکھنے پر کوئی قیاس آرائی نہیں کر سکتے۔
کونسل کا کہنا ہے کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خط لکھتے وقت جسٹس قاضی فائر عیسیٰ دباؤ میں تھے اور جب ریفرنس کی خبر آئی، اس وقت ان کے سسر اور بیٹی بیمار تھے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا کہنا ہے کہ ہمیں نہیں لگتا کہ صدر مملکت کو خط لکھنا کوئی سنجیدہ معاملہ تھا۔ صدر مملکت کو خط لکھنا مس کنڈکٹ نہیں تھا لہذا یہ شکایت داخل دفتر کی جاتی ہے۔
کونسل کی جانب سے جو باتیں کی گئیں وہ تقریباً وہی ہیں جو اس سے قبل جسٹس فائز عیسیٰ سپریم کورٹ میں اپنے خلاف دائر ریفرنسز پر دائر اپیل میں کہہ چکے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف ریفرنسز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے جس کے بعد اب دیگر سینئر وکلا اور سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن بھی ان کے دفاع میں ان ریفرنسز کو چیلنج کر چکی ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف حکومت نے ایک ریفرنس دائر کر رکھا ہے جس میں ان کی لندن میں موجود جائیداد کو اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اس ریفرنس کی سماعت ابھی جاری ہے اور سپریم جوڈیشل کونسل نے اس معاملے پر اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔