پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں ہلاکتوں کی تعدادمنگل کو 61 ہو گئی جب کہ 117 زخمی اب بھی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں 60 پولیس اہلکار جب کہ ایک فوجی افسر شامل ہے۔
حکام کے مطابق تمام حملہ آور ہلاک ہو چکے ہیں اور تربیتی مرکز سمیت علاقے کو سکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن کے بعد منگل کی صبح کلیئر قرار دے دیا۔
اس حملے کی ذمہ داری ایک غیر معروف شدت پسند تنظیم ’لشکر جھنگوی العالمی‘ نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ذرائع ابلاغ کو اس حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس میں تین دہشت گرد ملوث تھے جن کا پہلے نگرانی کے لیے قائم مینار پر تعینات اہلکار سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں یہ اہلکار مارا گیا۔
ان کے بقول اس کے بعد یہ تربیتی مرکز میں داخل ہوئے لیکن کچھ ہی دیر کے بعد سریع الحرکت فورس یہاں پہنچ گئی۔
ان کے بقول ایک حملہ آور کو سکیورٹی فورسز نے ہلاک کیا جب کہ دو نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
بتایا جاتا ہے کہ اس تربیتی مرکز میں لگ بھگ 700 زیر تربیت پولیس اہلکار موجود تھے۔ حملے کے وقت یہاں سے بچ نکلنے والے ایک شخص نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ "رات کے کھانے کے بعد جب ہمارے ساتھی سونے کی تیاری کر رہے تھے تو نامعلوم افراد یہاں گھس آئے۔ ہم لوگوں نے مرکز کی دیوار پھلانگ کر جان بچائی۔"
دہشت گردوں کے خلاف اس کارروائی کی نگرانی کرنے والے ایف سی کے سربراہ میجر جنرل شیرافگن کے مطابق تقریباً تین گھنٹوں میں دہشت گردوں کے خلاف یہ کارروائی مکمل کی گئی۔
صحافیوں سے گفتگو میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ حملہ آور فون پر جن لوگوں سے رابطے میں تھے وہ افغانستان میں موجود تھے۔
دوسری جانب صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
منگل کو پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت بھی کوئٹہ پہنچی جہاں زخمیوں کی عیادت کے بعد انھوں نے سلامتی کے امور کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس بھی کیا۔
کوئٹہ میں اس سے قبل بھی شدت پسند مہلک حملے کرتے رہے ہیں۔ اگست میں شہر کے سول اسپتال کے باہر ہونے والے خودکش بم دھماکے سے درجنوں وکلا سمیت 73 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔