ریلوے حکام کے کہنا ہے کہ پچھلے تقریباََ دو سال سے حکومت کی طرف سے مناسب مالی وسائل نا ملنے کی وجہ سے پاکستان ریلوے اس وقت شدید مالی بحران سے دوچار ہے ۔
ادارے کے ترجمان سعید اختر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مسافر اور مال بردار گاڑیوں کے جو انجن خراب ہوتے جارہے ہیں فنڈز نا ہونے کے باعث ان کی مرمت نہیں ہو پارہی ہے اور اس وقت ساٹھ فیصد انجن ناکارہ ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انجنوں کی کمی کی وجہ سے ریلوے کو آئے روز چھوٹے شہروں کے درمیان چلنے والی ٹرینوں کو بند کرنا پڑ رہا ہے تاکہ بڑے شہروں کے درمیان مسافروں کی آمد ورفت متاثر نا ہو ۔
سعید اختر نے بتایا کہ ریلوے کے پاس پانچ سو انجن ہیں جن میں سے تین سو کے قریب مرمت کی غرض سے کھڑے ہیں اور صرف دو سو انجنوں سے کام چلایا جارہاہے ۔ ”ریلوے کی مال برداری کی سرگرمیاں کم ترین سطح پر آگئی ہیں ۔ اس وقت ہماری ترجیح خراب انجنوں کی بحالی ہے۔“ ان کے بقول ایک انجن کی مرمت و بحالی پر اوسطاً پانچ کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔
ریلوے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کی طرف سے چھ ماہ قبل منظور کیے گئے ساڑھے دس ارب روپے کے پیکج کی ریلوے کو بروقت ادائیگی ہو جاتی تو ادارے کا بحران اتنا سنگین نا ہوتا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ مسلسل کئی دہاہیوں ریلوے کے ادارے کے حکام کی عدم توجہی ، بدعنوانی اور انتظامہ ڈھانچے میں اصلاحات کی حوصلہ شکنی دراصل ریلوے کی ابتر صورت حال کی بڑی وجوحات ہیں۔ حکومت پاکستان ان دنوں خود بھی شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے اور وزارت خزانہ کے عہدے دار اور قومی اسمبلی میں ریلوے سے متعلق قائمہ کمیٹی کے ارکان بھی اس بات پر زور دیتے آرہے ہیں کہ ریلوے کو مزید مالی وسائل کی فراہمی سے قبل اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ رقم بدانتظامی اور بدعنوانی کی نظر نہ ہو۔