پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ اس متعلق صوبائی حکومت سیکورٹی کے تمام تر اقدامات کرے گی اور کسی کو بھی شرانگیزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اسلام آباد —
یوم عاشور پر فرقہ وارانہ تصادم کے تقریباً ایک ہفتے بعد اسلام آباد سے متصل راولپنڈی شہر کے حالات معمول پر آگئے ہیں تاہم وہاں کے باسیوں میں ابھی بھی یہ خوف پایا جاتا ہے کہ صورتحال ایک بار پھر کشیدہ نا ہو جائے۔
اس خوف کی وجہ ان کے نزدیک شہر میں گزشتہ جمعہ کو پیش آنے والے واقعے کے خلاف مختلف مذہبی جماعتوں کی طرف سے مظاہروں کا اعلان ہے۔
تاہم پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ اس متعلق صوبائی حکومت سیکورٹی کے تمام تر اقدامات کرے گی اور کسی کو بھی شرانگیزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
’’انتظامیہ کو کہا ہے کہ پرامن احتجاج کرنے والوں کو مکمل تحفظ دیا جائے لیکن ہماری اپیل ہے کہ اس احتجاج کو مسجدوں یا امام بارگاہوں یا چار دیواری تک محدود رکھا جائے۔‘‘
دس محرم کے ماتمی جلوس کے دوران فرقہ وارانہ تصادم میں 11 افراد ہلاک اور 56 زخمی ہوئے تھے جبکہ کئی عمارتوں کو نذر آتش بھی کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد مقامی انتظامیہ نے شہر میں کرفیو نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ موبائل فون کی سروس بھی معطل کردی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مقامی دکاندار شکیل مقیم نے شہر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اعلان کردہ احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر عین ممکن ہے کہ راولپنڈی میں دکانیں اور کاروباری مرکز بند رہیں۔
’’لوگ پریشان ہیں کیونکہ صورتحال کا کوئی پتہ نہیں۔ حکومت سیکورٹی دے بھی تو لوگ اتنے غصے میں آجاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں تو بندہ کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
حکام کے مطابق جمعے کو دارالحکومت اسلام آباد میں بھی سیکورٹی ہائی الرٹ رہے گی اور حساس مقامات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی اضافی نفری تعینات کی جائے گی۔
صوبائی وزیر قانون نے راولپنڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب میں بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے واقعے میں ملوث 16 مشتبہ افراد کو تحویل میں لیا گیا ہے جبکہ وڈیو کیمرے کی مدد سے مسجد اور امام بارگاہوں پر حملہ آوروں میں سے 28 کی شناخت بھی کر لی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں مقامی اور دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔
ادھر نواز شریف حکومت کی اتحادی جماعت جمیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام مکاتب فکر کے اکابرین کا ایک اجلاس بلایا جائے تاکہ ’’فرقہ وارانہ تفرقوں کے ازالے اور ملی یکجہتی‘‘ کے لیے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔
ادھر مذہبی سیاسی جماعت وحدت المسلمین کے رہنما امین شہیدی نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’جو لوگ فتنہ پرست ہیں اور فتنہ پھیلاتے ہیں۔ قوم کو تقسیم کرتے ہیں اور شیعہ اور سنی کے نام پر لوگوں کو بہکاتے ہیں انہیں اسلامی کمیونٹی اور امت سے الگ کرکے دیکھنا چاہیے۔ ان کا اس امت سے کسی قسم کا تعلق نہیں ہے۔‘‘
راولپنڈی کے سانحہ کے بعد پنجاب حکومت کو غیر موثر سیکورٹی انتظامات پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اسی بنا پر وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیا اور کئی اعلیٰ پولیس افسران کے تبادلے بھی کیے۔
اس خوف کی وجہ ان کے نزدیک شہر میں گزشتہ جمعہ کو پیش آنے والے واقعے کے خلاف مختلف مذہبی جماعتوں کی طرف سے مظاہروں کا اعلان ہے۔
تاہم پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ اس متعلق صوبائی حکومت سیکورٹی کے تمام تر اقدامات کرے گی اور کسی کو بھی شرانگیزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
’’انتظامیہ کو کہا ہے کہ پرامن احتجاج کرنے والوں کو مکمل تحفظ دیا جائے لیکن ہماری اپیل ہے کہ اس احتجاج کو مسجدوں یا امام بارگاہوں یا چار دیواری تک محدود رکھا جائے۔‘‘
دس محرم کے ماتمی جلوس کے دوران فرقہ وارانہ تصادم میں 11 افراد ہلاک اور 56 زخمی ہوئے تھے جبکہ کئی عمارتوں کو نذر آتش بھی کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد مقامی انتظامیہ نے شہر میں کرفیو نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ موبائل فون کی سروس بھی معطل کردی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مقامی دکاندار شکیل مقیم نے شہر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اعلان کردہ احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر عین ممکن ہے کہ راولپنڈی میں دکانیں اور کاروباری مرکز بند رہیں۔
’’لوگ پریشان ہیں کیونکہ صورتحال کا کوئی پتہ نہیں۔ حکومت سیکورٹی دے بھی تو لوگ اتنے غصے میں آجاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں تو بندہ کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
حکام کے مطابق جمعے کو دارالحکومت اسلام آباد میں بھی سیکورٹی ہائی الرٹ رہے گی اور حساس مقامات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی اضافی نفری تعینات کی جائے گی۔
صوبائی وزیر قانون نے راولپنڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب میں بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے واقعے میں ملوث 16 مشتبہ افراد کو تحویل میں لیا گیا ہے جبکہ وڈیو کیمرے کی مدد سے مسجد اور امام بارگاہوں پر حملہ آوروں میں سے 28 کی شناخت بھی کر لی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں مقامی اور دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔
ادھر نواز شریف حکومت کی اتحادی جماعت جمیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام مکاتب فکر کے اکابرین کا ایک اجلاس بلایا جائے تاکہ ’’فرقہ وارانہ تفرقوں کے ازالے اور ملی یکجہتی‘‘ کے لیے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔
ادھر مذہبی سیاسی جماعت وحدت المسلمین کے رہنما امین شہیدی نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’جو لوگ فتنہ پرست ہیں اور فتنہ پھیلاتے ہیں۔ قوم کو تقسیم کرتے ہیں اور شیعہ اور سنی کے نام پر لوگوں کو بہکاتے ہیں انہیں اسلامی کمیونٹی اور امت سے الگ کرکے دیکھنا چاہیے۔ ان کا اس امت سے کسی قسم کا تعلق نہیں ہے۔‘‘
راولپنڈی کے سانحہ کے بعد پنجاب حکومت کو غیر موثر سیکورٹی انتظامات پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اسی بنا پر وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیا اور کئی اعلیٰ پولیس افسران کے تبادلے بھی کیے۔