اسلام آباد —
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں چار روز کی کشیدگی کے بعد منگل کو معمولات زندگی اور کاروباری سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہو گئیں۔
گزشتہ جمعہ کو یوم عاشور کے موقع پر راولپنڈی میں فرقہ وارانہ تصادم میں 10 افراد کی ہلاکت کے بعد شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا جو پیر کو ختم کیا گیا۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق راولپنڈی میں دفعہ 144 کا نفاذ بدستور رہے گا جس کے تحت کسی بھی طرح کے اجتماع پر پابندی ہے۔
صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ پولیس نے متعدد مشتبہ افراد کو تحویل میں لے کر اُن سے پوچھ گچھ شروع کر دی ہے۔
صوبائی وزیر قانون نے اس بات کی تصدیق کی کہ راولپنڈی میں ہونے والے تصادم میں ہلاک ہونے والے افراد میں سے بعض کا تعلق دوسرے شہروں سے تھا جو ماضی میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی لپیٹ میں رہے۔
رانا ثنا اللہ کے بقول جھڑپ میں ملوث کئی مشتبہ افراد کا تعلق بھی راولپنڈی کے علاوہ دیگر اضلاع ہے۔
’’اس میں بالکل صداقت ہے کہ جو مرنے والے ہیں اُن میں سے لوگوں کا تعلق گلگت، صوابی اور بٹگرام سے ہے۔ (بعض) ملزمان کا تعلق بھی دوسرے علاقوں سے ہے۔‘‘
اسی اثنا میں منگل کو صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات میں مقامی یونیورسٹی کے پروفیسر شبیر شاہ اور اُن کے ڈرائیور کو نامعلوم مسلح افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
پولیس کے مطابق پروفیسر شبیر شاہ گھر سے یونیورسٹی جا رہے تھے کہ موٹرسائیکل پر سوار حملہ آوروں نے اُن کی گاڑی کو روکنے کے بعد فائرنگ شروع کر دی۔
پروفیسر شبیر شاہ کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا اور ذرائع ابلاغ کے مطابق جائے وقوع سے ملنے والے ایک رقعہ پر لکھا تھا کہ یہ کارروائی راولپنڈی میں پیش آنے والے واقعہ کے ردعمل میں کی گئی ہے۔
تاہم پولیس کے مطابق اس حملے کے اصل محرکات کا پتا تحقیقات مکمل ہونے پر ہی چل سکے گا۔
پروفیسر شیبر شاہ کے قتل کے بعد گجرات یونیورسٹی کے طالب علموں نے احتجاج بھی کیا۔
راولپنڈی میں فرقہ وارانہ تصادم کے بعد صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع کوہاٹ اور ہنگو میں بھی احتجاجی مظاہروں کے دوران فائرنگ سے پولیس کے ایک اہلکار سمیت تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
کوہاٹ میں پیر کو کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا تاہم حکام کے مطابق مقامی عمائدین سے مذاکرات کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بدھ کو کرفیو ختم کر دیا جائے گا۔
گزشتہ جمعہ کو یوم عاشور کے موقع پر راولپنڈی میں فرقہ وارانہ تصادم میں 10 افراد کی ہلاکت کے بعد شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا جو پیر کو ختم کیا گیا۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق راولپنڈی میں دفعہ 144 کا نفاذ بدستور رہے گا جس کے تحت کسی بھی طرح کے اجتماع پر پابندی ہے۔
صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ پولیس نے متعدد مشتبہ افراد کو تحویل میں لے کر اُن سے پوچھ گچھ شروع کر دی ہے۔
صوبائی وزیر قانون نے اس بات کی تصدیق کی کہ راولپنڈی میں ہونے والے تصادم میں ہلاک ہونے والے افراد میں سے بعض کا تعلق دوسرے شہروں سے تھا جو ماضی میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی لپیٹ میں رہے۔
رانا ثنا اللہ کے بقول جھڑپ میں ملوث کئی مشتبہ افراد کا تعلق بھی راولپنڈی کے علاوہ دیگر اضلاع ہے۔
’’اس میں بالکل صداقت ہے کہ جو مرنے والے ہیں اُن میں سے لوگوں کا تعلق گلگت، صوابی اور بٹگرام سے ہے۔ (بعض) ملزمان کا تعلق بھی دوسرے علاقوں سے ہے۔‘‘
اسی اثنا میں منگل کو صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات میں مقامی یونیورسٹی کے پروفیسر شبیر شاہ اور اُن کے ڈرائیور کو نامعلوم مسلح افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
پولیس کے مطابق پروفیسر شبیر شاہ گھر سے یونیورسٹی جا رہے تھے کہ موٹرسائیکل پر سوار حملہ آوروں نے اُن کی گاڑی کو روکنے کے بعد فائرنگ شروع کر دی۔
پروفیسر شبیر شاہ کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا اور ذرائع ابلاغ کے مطابق جائے وقوع سے ملنے والے ایک رقعہ پر لکھا تھا کہ یہ کارروائی راولپنڈی میں پیش آنے والے واقعہ کے ردعمل میں کی گئی ہے۔
تاہم پولیس کے مطابق اس حملے کے اصل محرکات کا پتا تحقیقات مکمل ہونے پر ہی چل سکے گا۔
پروفیسر شیبر شاہ کے قتل کے بعد گجرات یونیورسٹی کے طالب علموں نے احتجاج بھی کیا۔
راولپنڈی میں فرقہ وارانہ تصادم کے بعد صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع کوہاٹ اور ہنگو میں بھی احتجاجی مظاہروں کے دوران فائرنگ سے پولیس کے ایک اہلکار سمیت تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
کوہاٹ میں پیر کو کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا تاہم حکام کے مطابق مقامی عمائدین سے مذاکرات کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بدھ کو کرفیو ختم کر دیا جائے گا۔