پاکستان: فیس بک اکاؤنٹس کو موبائل فون نمبر سے جوڑنے کی تجویز

فائل

پاکستان میں حالیہ مہینوں میں ایسی کئی شکایات سامنے آئی ہیں کہ بعض افراد سماجی رابطے کے ویب سائٹس، خاص طور پر فیس بک پر، جعلی اکاؤنٹس بنا کر ان پر مبینہ طور توہین آمیز اور نفرت آمیز مواد پوسٹ کرتے ہیں

پاکستان میں حکام نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کی انتظامیہ کو تجویز دی ہے کہ بےنامی اکاوئنٹس کے معاملے سے نمٹنے کے لیے مقامی طور پر پاکستانی شہریوں کے فیس بک اکاؤنٹس کو ان کے موبائل فون نمبر کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔

پاکستان میں حالیہ مہینوں میں ایسی کئی شکایات سامنے آئی ہیں کہ بعض افراد سماجی رابطے کے ویب سائٹس، خاص طور پر فیس بک پر، جعلی اکاؤنٹس بنا کر ان پر مبینہ طور توہین آمیز اور نفرت آمیز مواد پوسٹ کرتے ہیں۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے، اے پی پی نے ٹیلی مواصلات کے شعبے کے نگران ادارے، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ فیس بک نے مبنیہ طور پر توہین آمیز مواد کے معاملے سے متعلق فوری کارروائی کے لیے ایک ’فوکل پرسن‘ مقرر کیا ہے جو پی ٹی اے کے ساتھ رابطے میں رہے گا۔

پی ٹی اے کے عہدیدار نے مزید کہا کہ فیس بک پر اکاؤنٹ ای میل کے ذریعے ہی کھولا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول، اگر تمام موجودہ فیس بک اکاؤنٹس کی موبائل فون نمبر کے ذریعے تصدیق کی جاتی ہے تو جعلی اکاونٹس کے معاملے سے نمٹا جا سکیا ہے، کیونکہ پاکستان میں تمام موبائل فون نمبر بائیومیٹرک سسٹم کے تحت تصدیق شدہ ہیں۔

فیس بک انتظامیہ کی طرف سے تاحال اس تجویز پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ لیکن، یہ تجویز ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب گزشتہ ہفتہ ہی فیس بک کے نائب صدر جوئیل کپلان نے اسلام آباد کے دورے کے دوران وزیر داخلہ چوہدری نثار سے ملاقات کی تھی۔

انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’بائٹس فار آل‘ کے عہدیدار ہارون بلوچ نے کہا کہ جعلی اکاؤنٹس پر تو ضرور نظر رکھنی چاہیے۔ لیکن، انہیں خدشہ ہے کہ، ان کے بقول، حکومت اس کو جواز بنا کر ان افراد کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے جو سماجی میڈیا پر مختلف موضوعات پر بات کرتے ہیں۔

جمعرات کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "مجھے اب بھی یہی لگ رہا ہے کہ حکومت کے ارادے یہ ہیں کہ ان لوگوں کو پکڑا جائے جو پاکستانی ریاست کی بعض پالیسیوں کے بارے میں سوالات کرتے ہیں جو کہ حکومت کو پسند نہیں ہیں۔"

ہارون بلوچ نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان کے پاس موبائل استعمال کرنے والے تمام افراد کا ڈیٹا موجود ہے۔

بقول اُن کے، "یہ حکومت کے لیے آسان ہو جائے گا کہ وہ اس قسم کے افراد کو ٹریک کر لیے بجائے اس کے وہ فیس بک کو درخواست کرے وہ براہ راست پی ٹی اے کے ذریعے ان اکاؤنٹس کا سوراغ لگا لیں گے۔"

دوسری طرف، حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت آزادی اظہار کا احترام کرتی ہے اور صرف انہیں افراد کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے جو مبینہ طور پر سماجی میڈیا پر ایسا مواد پوسٹ کر رہے ہیں۔

پاکستان کے قانون کے مطابق، توہین مذہب کا ارتکاب جرم ہے جس کی سزا موت ہے اور حکام نے حالیہ مہینوں میں ایسے متعداد افرد کے خلاف کارروائی کی ہے جو مبینہ طور پر ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور گزشتہ ماہ پاکستان کی ایک عدالت نے فیس بک پر توہینِ مذہب کا ارتکاب کرنے کے جرم میں ایک شخص کو سزائے موت بھی سنائی جا چکی ہے۔