بلوچستان میں عیلحدگی پسند تنظمیوں کی طرف سے سرکاری تنصیبات پر حملوں اور لسانی و سیاسی بنیادوں پر لوگوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات حالیہ چند برسوں کے دوران معمول کی کارروائی بن چکے ہیں، لیکن پچھلے چند ماہ کے دوران صوبے میں شعیہ ہزارہ برادری پر مشتبہ سنی انتہا پسندوں کے حملوں میں تیزی آئی ہے اور ان میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہزارہ برادری تشدد کے ان واقعات کے خلاف صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں سراپا احتجاج ہے اور بظاہر ان کے اس پیغام کو پاکستانی پارلیمان تک پہنچانے اور حکومت پر موثر کارروائی کے لیے دباؤ بڑھانے کے لیے حکمران پیپلزپارٹی کے بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی ناصرعلی شاہ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے باہر احتجاجی دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
اس رکن پارلیمنٹ کا تعلق بھی شیعہ ہزارہ برادری سے ہے اور اُن کا موقف ہے کہ جب تک حکومت بلوچستان میں اُن کی برادری کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات نہیں کرتی، اُن کا احتجاج جاری رہے گا۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں اُنھوں نے کہا ’’ابھی دو تین ماہ میں جو (واقعات) ہوئے ہیں خاص طور پر لوگوں کو شناخت کرنے کے بعد بسوں سے اتار کے گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کو پتہ ہے کہ ان کے پاس اسلحہ نہیں ہے اور حکمرانوں نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے خصوصاً بلوچستان حکومت نے۔‘‘
ناصر شاہ کے احتجاجی دھرنے کے ردعمل میں وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے بدھ کو کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو میں ہزارہ برادری کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ بلوچستان کے راستے ایران جانے والے شیعہ زائرین کی حفاظت کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔
مزید برآں وزیر داخلہ نے بتایا کہ نومبر میں حکومت نے ایک امن کانفرنس بلانے کا فیصلہ بھی کیا ہے جس کا مقصد شیعہ سنی فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کر کے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔
محتاط اندازوں کے مطابق بلوچستان میں شیعہ ہزارہ برادری کی آبادی لگ بھگ چار لاکھ ہے۔