پاکستان نے عالمی عدالتِ انصاف میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے سے متعلق جاری سماعت میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ دو ریاستی حل کو خطے میں امن کی بنیاد ہونا چاہیے۔
جمعے کو پاکستان کے نگراں وزیرِ قانون احمد عرفان اسلم نے دی ہیگ میں جاری عالمی عدالتِ انصاف کی سماعت میں پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کا حامی رہا ہے اور اس کا دفاع کرتا رہے گا۔
بین الاقوامی عدالتِ انصاف، اقوامِ متحدہ کی جانب سے کی جانے والی درخواست کے بعد فلسطینی مقبوضہ علاقے سے متعلق ایک ہفتے پر محیط سماعتیں کر رہی ہے۔
اس کارروائی میں 52 ملک اسرائیل کے قبضے کے بارے میں اپنی رائے دے رہے ہیں جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔
زیادہ تر ملکوں کے مقررین نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ اس نے 1967 میں چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا اسے ختم کر دے۔ لیکن واشنگٹن عالمی عدالت میں اپنے اتحادی کے دفاع کے لیے سامنے آیا ہے۔
امریکہ نے بدھ کو اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت سے کہا تھا کہ سیکیورٹی ضمانتوں کے بغیر اسرائیل کو قانونی طور پر مقبوضہ فلسطینی سرزمین سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔
جمعے کو ہونے والی سماعت میں قطر، عمان، انڈونیشیا، نمیبیا اور پاکستان نے اپنا مؤقف پیش کیا ہے۔
سماعت میں پاکستان کے نگراں وزیرِ قانون احمد عرفان اسلم نے کہا کہ وہ پانچ نکات سے متعلق پاکستان کا مؤقف پیش کریں گے۔ ان پانچ نکات میں فلسطینیوں کا حق خود ارادیت، اسرائیل کی جانب سے زمینوں پر قبضہ اور الحاق، منظم نسلی امتیاز اور اپارتھیڈ، یروشلم اور اس کے مقدس مقامات کی حیثیت اور دو ریاستی حل شامل ہیں۔
نسلی بنیادوں پر سیاسی اور سماجی سطح پر تقسیم کو اپارتھیڈ کہا جاتا ہے۔ عام طور پر جنوبی افریقہ میں سیاہ اور سفید فام باشندوں کے درمیان نسلی تفریق کا حوالہ دینے کے لیے اپارتھیڈ ہی کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
SEE ALSO: عالمی عدالت انصاف اسرائیل کو فلسطینی سرزمین چھوڑنے کا حکم نہ دے: امریکہان کا کہنا تھا کہ عالمی عدالتِ انصاف اور اقوامِ متحدہ نے فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کیا ہے۔ اسرائیل نے ایسے اقدامات کیے ہیں جو اس حق کو تسلیم کرنے کے لیے اس پر عائد ذمے داریوں کی خلاف ورزی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد سیکیورٹی کونسل نے اپنی قرار داد میں کہا تھا کہ اسرائیل کو مسلح تنازع کے بعد قبضہ کیے گئے علاقے خالی کرنے ہوں گے۔ 1980 میں اقوامِ متحدہ نے ایک اور قرار داد میں عرب علاقوں پر اسرائیل کا جاری قبضہ ختم کرنے کے مطالبے کا اعادہ کیا تھا۔
احمد عرفان اسلم کا کہنا تھا کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بن گوریان نے 1950 میں کہا تھا کہ اسرائیل میں نیل سے فرات تک کے علاقے شامل ہونے چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے یہ ہدف سفارتی کاری اور جارحیت کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان کے وزیرِ قانون نے کہا کہ اسرائیل نے آباد کاری کے ذریعے ناقابلِ واپسی زمینی حقائق بنانے کی کوشش کی ہے جن کا مقصد مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں اپنا دیرینہ قبضہ ختم کرنے کے راستے میں رکاوٹیں بڑھانا ہے۔ اگرچہ اقوامِ متحدہ اسرائیلی آباد کاری کو بین الاقوامی قوانین کی ’خلاف ورزی‘ قرار دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے 1967 سے فلسطینیوں کے خلاف نسلی امتیاز پر مبنی نظام تشکیل دیا ہے۔ یہ نظام نسلی اور مذہبی بنیادوں پر فلسیطینیوں اور یہودی آبادکاروں کے درمیان امتیاز کرتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ یروشلم اپنی اس حیثیت میں منفرد ہے کہ یہ تین ابراہیمی مذاہب کے لیے مقدس ہے۔ تاریخی اعتبار سے مسیحی، مسلمان اور یہودی یروشلم میں اپنے اپنے مقدس مقامات پر عبادات کا حق رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انیسوی صدی میں عثمانی سلطنت کے فرمانوں میں اس حق کو تسلیم کیا گیا تھا اور بعد میں ہونے والے دو طرفہ اور کثیر فریقی معاہدوں میں بھی اس حیثیت کو مانا گیا ہے۔
وزیرِ قانون نے کہا کہ اسرائیل کے قبضے کے بعد سے مسیحیوں اور مسلمانوں کو ان کے مقدس مقامات تک رسائی کے حق سے محروم کیا گیا ہے۔ اس لیے ان طے شدہ حقوق کو فوری طور پر بحال ہونا چاہیے۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کے دوسرے بڑے اسلامی ملک پاکستان کے لیے یہ معاملہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔
دو رہاستی حل کے بارے میں احمد عرفان اسلم نے کہا کہ پاکستان کے نزدیک دو ریاستی حل کو خطے میں امن کی بنیاد بننا چاہیے۔
انہوں ںے کہا دو ریاستی حل کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اس طرح کہ ’’یہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایسا جلد از جلد ہونے والا حل ہو جس کے نتیجے میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک فلسطینی ریاست قائم ہو جس سے خطے کے تمام ممالک کے امن اور تحفظ بھی یقینی بنایا جائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ان بنیادوں پر پاکستان دو ریاستی حل کو تسلیم کرتا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ قانون نے کہا کہ عدالت کی کارروائی میں دو ریاستی حل سے متعلق دی گئی تجاویز بہت اہم ہوں گی جن سے اس حل پر گفتگو کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی اور یہ تجاویز دو ریاستی حل کو بین الاقوامی جواز دینے کی بنیاد بنیں گی۔
SEE ALSO: اسرائیل کےخلاف مقدمےکا مختصرفیصلہ: عالمی رد عملانہوں نے کہا کہ عدالت کو یہ بنیادی بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ کسی ریاست کو اس کے غلط اقدامات سے فائدہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاستی ذمے داری کے تسلیم شدہ اصول کے تحت اسرائیل کو بھی اس کے غلط اقدامات کا فائدہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ذمے داریاں اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں سے غیر مشروط دست برداری کا تقاضا کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی اصول کے تحت تمام ممالک پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس قبضے کو تسلیم نہ کریں اور نہ ہی اس میں کوئی مدد فراہم کریں۔
انہوں ںے کہا کہ بعض ممالک کا یہ مؤقف درست نہیں ہے کہ عالمی عدالت انصاف کو اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی قرار دینے سے گریز کرنا چاہیے اور اسرائیل مقبوضہ علاقوں سے دست بردار ہونے کا پابند نہیں ہے۔
وزیرِ قانون نے کہا کہ اگر اسرائیل کو اس کی غلطیوں سے فائدہ حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تو عدالت اپنی ذمے داری سے عہدہ برآ نہیں ہو گی۔
انہوں ںے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو عدالت دیگر ممالک کو بھی یہ پیغام دے گی کہ وہ بھی کسی دوسری ریاست کے علاقوں پر طویل اور غیر قانونی قبضہ کر کے فائدہ حاصل کرسکتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر 2022 میں عالمی عدالت انصاف سے کہا تھا کہ وہ مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی پالیسیوں اور طرز عمل سے پیدا ہونے والے قانونی نتائج کے بارے میں اپنی مشاورتی رائے دے۔
ممکنہ طور پر سال کے اختتام سے پہلے عدالت اپنی رائے دے گی لیکن کسی پر اس کی پابندی نہیں ہے۔
اسرائیل نے عالمی عدالتِ انصاف کی کارروائی میں اپنا وفد نہیں بھیجا ہے۔ تاہم اس نے ایک تحریری بیان جمع کرایا ہے جس میں اس نے عدالت کے پوچھے گئے سوالات کو متعصبانہ قرار دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے قبل بدھ کو امریکی محکمہ خارجہ کے قانونی مشیر رچرڈ ویزیک نے کارروائی میں یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ عدالت کو یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ اسرائیل قانونی طور پر مقبوضہ علاقے سے فوری اور غیر مشروط طور پر دست بردار ہونے کا پابند ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا تھا "مغربی کنارے اور غزہ سے اسرائیل کے انخلا سے متعلق کسی بھی اقدام کے لیے اسرائیل کی سلامتی کی حقیقی ضروریات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔"
انہوں نے حماس کے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سات اکتوبر کا واقعہ ہم سب کے لیے سیکیورٹی کی ان ضروریات کی یاد ہانی ہے جس نے موجودہ تنازع کو جنم دیا ہے۔
بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی حالیہ کارروائی اس ہائی پروفائل کیس سے الگ ہے جو جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف لایا گیا تھا اور جس میں کہا گیا تھا کہ غزہ پر اس کا حالیہ حملہ مبینہ طور پر نسل کشی ہے۔
اس معاملے میں عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی جیسے اقدامات روکنے کے لیے وہ سب کچھ کرنا چاہیے جو اس کی طاقت میں ہے اور اسے انسانی امداد فراہم کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔