حکومتِ پاکستان کی کالعدم ٹی ٹی پی سے دوبارہ مصالحت کی کوشش، قبائلی عمائدین سرگرم

فائل فوٹو

حکومتِ پاکستان نے کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ صلح اور امن معاہدے کے لیے قبائلی رہنماؤں پر مشتمل جرگوں کے ذریعے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ اس ضمن میں شمالی اور جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنماؤں پر مشتمل دو علیحدہ جرگے سرحد پار افغانستان میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے جنگجو کمانڈروں سے مذاکرات کر رہے ہیں ۔

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے کالعدم ٹی ٹی پی سے امن معاہدے کے لیے کوششوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ عام لوگوں کو بھی اس سلسلے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تشدد اور دہشت گردی سے ملک و قوم کا بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔

ان کے بقول وفاقی حکومت گزشتہ کئی برسوں سے قیام امن کے لیے کوشاں ہے اور امید ہے کہ حالیہ کاوشیں بہت جلد نتیجہ خیز ثابت ہوں گی۔

اطلاعات کے مطابق شمالی وزیرستان کا 10 رکنی جرگہ حقانی نیٹ ورک کی وساطت سے افغانستان میں روپوش شدت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر جب کہ جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل کا جرگہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔

بیرسٹر سیف نے کالعدم ٹی ٹی پی سے مصالحت کے لیے افغان طالبان اور شمالی و جنوبی وزیرستان کے رہنماؤں پر مشتمل روایتی جرگوں کے ارکان کے کردار کو سراہا ہے۔

SEE ALSO: پاکستان کے پاس سرحد پار سے ٹی ٹی پی کے حملے روکنے کے کیا آپشن ہیں؟

کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مصالحت کے لیے حکومتی کوششیں ایسے وقت ہو رہی ہیں جب خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں بالخصوص قبائلی علاقوں میں تشدد اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ منگل کو ہی ٹی ٹی پی نے ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی کے علاقے مڈی میں انسداد پولیو مہم کی ٹیم کی سیکیورٹی پر مامور پولیس وین کو نشانہ بنانے کی ذمے داری قبول کی ہے۔

جرگہ ارکان کی سراج الدین حقانی سے ملاقات متوقع

پشاور سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی کے مطابق جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل نے جنوری میں افغانستان کا دورہ کیا تھا اور اب دوبارہ سرحد پار روپوش کالعدم ٹی ٹی پی سے منسلک کمانڈروں اور رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔

مشتاق یوسفزئی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایاکہ جرگہ ارکان کابل میں موجود ہیں جہاں وہ افغان طالبان رہنماؤں بشمول وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی کے ساتھ ملاقات کریں گے۔

ان کے بقول ٹی ٹی پی کمانڈروں نے محسود قبائل کے رہنماؤں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس مصالحتی عمل میں افغان طالبان رہنماؤں کو شامل کریں کیوں کہ گزشتہ برس اکتوبر میں پاکستان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور ایک مہینے کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ افغان طالبان رہنماؤں کی وساطت سے ہی ہوا تھا ۔

یاد رہے کہ اگست 2021کے وسط میں طالبان کے افغانستان میں برسر اقتدار آنے کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان مصالحت کے لیے مذاکرات شروع ہوئے تھے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'اگر ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہی کرنے تھے تو آپریشن کیوں کیے'

ٹی ٹی پی نے لگ بھگ 100 جنگجوؤں کی رہائی کی یقین دہانی پر یکم نومبر 2021 سے ایک مہینے کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا مگر نو دسمبر کو ٹی ٹی پی نے ازخود حکومت پر وعدہ خلافی کا الزام لگا کر جنگ بندی ختم کردی تھی۔ بعدازاں خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔

ٹرائیبل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر صفدر داوڑ نے بتایا کہ کابل پہنچنے والے قبائلی رہنماؤں کے وفد کی قیادت ملک نصراللہ خان کر رہے ہیں اور اس وفد میں ملک خان مرجان وزیر، ملک حبیب اللہ داوڑ، ملک میر قدر، ملک جان فراز، ملک شیر خان وزیر اور دیگر شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جرگہ ارکان نے اتوار کو شمالی وزیرستان سے ملحقہ افغانستان کے سرحدی صوبہ خوست میں گورنر ہاؤس میں طالبان رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔ جب کہ مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں قبائلی رہنماؤں نے خوست میں ہی حافظ گل بہادر کے ساتھ بھی بات چیت کی ہے۔

ان کے بقول حافظ گل بہادر کے ساتھ شمالی وزیرستان کے قبائلی رہنماؤں کے مذاکرات کامیاب ہونے کی اطلاعات ہیں مگر جب تک کالعدم ٹی ٹی پی اور حکومتِ پاکستان کے درمیان کوئی صلح اور امن معاہدہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک حافظ گل بہادر کے ساتھ ہونے والی مفاہمت کو منظر عام پر لانے کا کوئی فائدہ نہیں۔

واضح رہے کہ حافظ گل بہادر شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں پر مشتمل 'شوری مجاہدین' کے سربراہ ہیں اور جنگجوؤں کا یہ گروہ کالعدم ٹی ٹی پی کا اتحادی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغان طالبان کی پاکستان کو ٹی ٹی پی کے خلاف مدد کرنے کی یقین دہانی

خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ اور سینئر تجزیہ کار سید اختر علی شاہ کہتے ہیں پاکستان کے پاس ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ ان کے بقول افغانستان میں برسر اقتدار طالبان نے پاکستان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کے بجائے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی تجویز دی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والی حالیہ بات چیت ان مذاکرات کا تسلسل ہے جو افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد شروع ہوئے تھے۔

سید اختر علی شاہ کے مطابق بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مصالحت کے لیے جاری کوششوں میں کافی پیش رفت ہوئی ہے اور اب صرف معاہدے کی تفصیلات منظرِ عام پر آنا باقی ہیں۔

دوسری جانب افغانستان کے معروف صحافی سمیع یوسفزئی نے بھی کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات کی تصدیق کی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں برسر اقتدار طالبان رہنماؤں نے پاکستانی طالبان سے کہا ہے کہ وہ اپنی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرکے مسائل کو حل کریں۔

حکومتِ پاکستان نے اعلان کر رکھا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جو جنگجو مزاحمت چھوڑ کر ملکی آئین کو تسلیم کریں گے، اُنہیں عام معافی دے دی جائے گی۔

اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی طالبان اپنے مطالبات میں کوئی لچک دکھانے کو تیار نہیں ہیں اور وہ اسلامی نظام کے نفاذ اور قبائلی علاقوں کی خود مختاری کے اپنے مطالبات پر قائم ہیں۔

قبائلی عمائدین کے جرگے کے ذریعے تحریک طالبان کے ساتھ مصالحت کی کوششوں کے بار ے میں حکومتِ پاکستان کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن ماضیٔ قریب میں وزیرِ داخلہ شیخ رشید سمیت کئی عہدے داروں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی تصدیق کی تھی۔

پاکستانی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ بات چیت پاکستان کے آئین کے دائرہ کار کے اندر ہی ہو سکتی ہے اور حکومت ان شدت پسند عناصر کو عام معافی دینے پر تیار ہے جو عسکریت پسندی چھوڑ کر مرکزی دھارے میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔