پاکستان کی عدالت عظمٰی نے چار مشتبہ دہشت گردوں کی دوران حراست ہلاکت کے خلاف دائر درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے فوج کی خفیہ ایجنسیوں، آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس، سمیت سیکرٹری دفاع کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کو ان درخواستوں پر کارروائی کرتے ہوئے سلامتی سے متعلق اداروں کی حراست میں ہونے والی ہلاکتوں کو ایک سنگین مسئلہ قرار دیا اور حکومت کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر کے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرے۔
اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نےعدالت کو بتایا کہ وہ اس مقدمے کی آئندہ سماعت پر اپنی رپورٹ پیش کر دیں گے۔
ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم صف اوّل کی ایک تنطیم نے راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر، جی ایچ کیو، اور دیگر فوجی اہداف پر حملوں میں ملوث زیرحراست مشتبہ افراد میں سے ایک اور کی لاش ملنے کی اطلاعات کو انتہائی تشویش ناک قرار دیتے ہوئے ان پُراسرار ہلاکتوں کےاسباب جاننے کے لیے حکومت سے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آرسی پی) کی طرف سے منگل کی شب جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ زیر حراست افراد کے رشتہ دار اُنھیں اذیت دینے اور ہلاک کرنے کے خدشات کا پہلے ہی اظہار کر چکے تھے۔
’’ایچ آر سی پی کے لیے یہ امر گہری تشویش کا باعث ہے کہ گزشتہ ہفتے پشاور میں عبدالصبور کی لاش برآمد ہونے کے بعد جی ایچ کیو پر حملے کے الزام میں زیر حراست 11 میں سے چار کی لاشیں سامنے آچکی ہیں۔‘‘
تنظیم نے کہا ہے کہ مرنے والے چاروں افراد اور زیر حراست دیگر سات کے خاندانوں کی حالت زار اُن سینکڑوں سے مختلف نہیں ہے جو اپنے پیاروں کی ’’ریاست کے ایجنٹوں کے ہاتھوں جبراً گمشدگی سے برباد ہو گئے ہیں‘‘۔
ایچ آر سی پی نے ایک بار پھر کہا ہے کہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کی سچائی یا سنگینی سے قطع نظر ملزمان کو اُن کے جائز قانونی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
’’ایچ آر سی پی کی رائے میں ایسے واقعات ریاست کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ (دہشت گردوں کے برعکس) قانون کی بالادستی کو اجاگر کرکے اپنی شناخت کو اجاگرکرے۔ مگر بدقسمتی سے ایسے شواہد تواتر سے سامنے آئے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ ریاستی ایجنٹ اس رائے سے متفق نہیں۔‘‘
تنظیم نے کہا ہے کہ وہ حکومت سے اس معاملے کی چھان بین کا مطالبہ کرتی ہے قبل اس کے کہ ستم زدہ خاندان عدالتوں سے رجوع کریں۔ ’’ مرنے والے چار افراد پر مبینہ اذیت اور اُن کی اموات کے اسباب کا پتہ لگانے کے لیے فوری طور پر تحقیقات شروع کی جائیں جو متاثرہ خاندانوں کے لیے تسلی بخش ہوں اور اذیت دینے والوں کی شناخت کر کے اُنھیں سزا دلا سکیں۔‘‘
ایچ آر سی پی نے اُمید ظاہر کی ہے کہ حکومت تمام لاپتا افراد کی برآمدگی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے ایسے واقعات کی فی الفور روک تھام کے لیے اقدامات کرے گی ’’جو انصاف، جائز قانونی اور انسانی حقوق کی تضحیک کے مترادف ہیں‘‘۔