نیپال کی انفارمل سیکٹر سروس سنٹر نامی تنظیم کے چیئرمین سبودھ راج کا کہنا تھا کہ مسائل کو انسانی حقوق کے زاویے سے دیکھیں گے تو اسے حل کیا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد —
جنوب ایشیائی ممالک کے درمیان اقتصادی، تجارتی، تعلیمی و ثقافتی شعبوں میں تعاون بڑھانے اور خطے سے سماجی بدحالی دور کرنے کے لیے سارک نامی ایک علاقائی تنظیم تو تشکیل دی گئی مگر اب تک ماہرین و مبصرین کے بقول ممکنہ اہداف حاصل نا ہو سکے۔
اس کی وجہ خطے کی جوہری طاقتوں یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات کو گردانا جاتا ہے۔
تاہم جنوب ایشیائی ممالک کے حقوق انسانی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر ایک ایسا نظام وضع کرنا ضروری ہے جس سے علاقے میں انسانی حقوق سے متعلق مسائل کا بہتر اور فعال انداز میں حل تلاش کیے جا سکے۔
یہ مطالبہ جمعرات کو اسلام آباد میں انہوں نے دو روزہ نشست کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے کیا۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نیپال کی انفارمل سیکٹر سروس سنٹر نامی تنظیم کے چیئرمین سبودھ راج کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھوٹان کی طرف سے سرکاری سطح پر قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی تشکیل نا ہونے کے باعث تاخیر ہو رہی ہے۔
’’اپنی تاریخ کو پھر سمجھو۔ اس زمانے کی بات کرو جب ویزہ، پاسپورٹ نا تھا۔ ان تمام چیزوں کو انسانی حقوق کے زاویہ سے دیکھو گے تو اسے حل کیا جا سکتا ہے۔ ہر چیز کو آپ سیاسی بنا دو گے تو پیچیدگیاں ہی پیدا ہوں گی۔‘‘
یورپی یونین کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’’وہاں تو مشترکہ پارلیمنٹ سے اب وہ یورپین کورٹ آف جسٹس پر چلے گئے جو کہ فیصلوں کو مسترد کرنے کا حق رکھتی ہے۔ تو کیا ان میں اختلافات نہیں؟‘‘
پاکستان کی سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ کمیٹی کو حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ آئندہ دو ماہ میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کو فعال بنا دیا جائے گا۔
پاکستان کی غیر جانبدار انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان کا کہنا تھا کہ علاقائی سطح پر انسانی حقوق سے متعلق سرکاری طور پر ایک طریقہ کار بننے سے متعلقہ حکومتوں کو مختلف مسائل کے حل کی تلاش پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔
’’آپ کے ماہی گیر پکڑے جاتے ہیں۔ ان کی کشتیاں ضبط کرلی جاتی ہیں جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔ پھر کام کاج کے لیے ہجرت کرنے والوں اور پناہ گزینوں کے مسئلے ہیں۔ اگر ہندوستان یا بنگلہ دیش نے اپنے بچوں کو تعلیم دینے کا اچھا طریقہ وضع کیا ہے تو پھر ہمیں کوسٹاریکا یا کہیں اور جا کر جائزہ لینے کی کیا ضرورت۔ یہیں سے کیوں نا اپنا لیں۔‘‘
پاکستان اور بھارت میں انتخابات کے بعد نئی قیادت سامنے آ چکی ہے۔ نواز شریف اور نریندر مودی کاروباری سوچ رکھنے اور معاشی و تجارتی بڑھاوا ان کی ترجیحات گردانی جاتی ہیں۔
اسی وجہ سے توقع کی جاتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور اقتدار میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری ممکن ہے۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ عالمی کنونشن انسانی حقوق سے متعلق کنونشن کی منظوری اور اقوام متحدہ میں ان حقوق کو یقینی بنانے کے لیے طریقہ کار کے وضع ہونے کے بعد دنیا بھر میں علاقائی سطح پر ایسے نظام متعارف ہوئے تاہم جنوبی ایشیا میں اب تک ایسا نا ہوسکا۔
اس کی وجہ خطے کی جوہری طاقتوں یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات کو گردانا جاتا ہے۔
تاہم جنوب ایشیائی ممالک کے حقوق انسانی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر ایک ایسا نظام وضع کرنا ضروری ہے جس سے علاقے میں انسانی حقوق سے متعلق مسائل کا بہتر اور فعال انداز میں حل تلاش کیے جا سکے۔
یہ مطالبہ جمعرات کو اسلام آباد میں انہوں نے دو روزہ نشست کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے کیا۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نیپال کی انفارمل سیکٹر سروس سنٹر نامی تنظیم کے چیئرمین سبودھ راج کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھوٹان کی طرف سے سرکاری سطح پر قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی تشکیل نا ہونے کے باعث تاخیر ہو رہی ہے۔
’’اپنی تاریخ کو پھر سمجھو۔ اس زمانے کی بات کرو جب ویزہ، پاسپورٹ نا تھا۔ ان تمام چیزوں کو انسانی حقوق کے زاویہ سے دیکھو گے تو اسے حل کیا جا سکتا ہے۔ ہر چیز کو آپ سیاسی بنا دو گے تو پیچیدگیاں ہی پیدا ہوں گی۔‘‘
یورپی یونین کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’’وہاں تو مشترکہ پارلیمنٹ سے اب وہ یورپین کورٹ آف جسٹس پر چلے گئے جو کہ فیصلوں کو مسترد کرنے کا حق رکھتی ہے۔ تو کیا ان میں اختلافات نہیں؟‘‘
پاکستان کی سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ کمیٹی کو حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ آئندہ دو ماہ میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کو فعال بنا دیا جائے گا۔
پاکستان کی غیر جانبدار انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان کا کہنا تھا کہ علاقائی سطح پر انسانی حقوق سے متعلق سرکاری طور پر ایک طریقہ کار بننے سے متعلقہ حکومتوں کو مختلف مسائل کے حل کی تلاش پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔
’’آپ کے ماہی گیر پکڑے جاتے ہیں۔ ان کی کشتیاں ضبط کرلی جاتی ہیں جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔ پھر کام کاج کے لیے ہجرت کرنے والوں اور پناہ گزینوں کے مسئلے ہیں۔ اگر ہندوستان یا بنگلہ دیش نے اپنے بچوں کو تعلیم دینے کا اچھا طریقہ وضع کیا ہے تو پھر ہمیں کوسٹاریکا یا کہیں اور جا کر جائزہ لینے کی کیا ضرورت۔ یہیں سے کیوں نا اپنا لیں۔‘‘
پاکستان اور بھارت میں انتخابات کے بعد نئی قیادت سامنے آ چکی ہے۔ نواز شریف اور نریندر مودی کاروباری سوچ رکھنے اور معاشی و تجارتی بڑھاوا ان کی ترجیحات گردانی جاتی ہیں۔
اسی وجہ سے توقع کی جاتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور اقتدار میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری ممکن ہے۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ عالمی کنونشن انسانی حقوق سے متعلق کنونشن کی منظوری اور اقوام متحدہ میں ان حقوق کو یقینی بنانے کے لیے طریقہ کار کے وضع ہونے کے بعد دنیا بھر میں علاقائی سطح پر ایسے نظام متعارف ہوئے تاہم جنوبی ایشیا میں اب تک ایسا نا ہوسکا۔