وزیر اعظم عمران خان کے یوکرین جنگ کے آغاز پر روس کے دورے کو دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے اہم قرار دیا جارہا ہے لیکن ساتھ ہی مبصرین پاکستانی رہنما کی روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کی ٹائمنگ کو ایک وسیع تر عالمی تناظر میں جانچتے ہوئے اس دورے پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے اس دورے کے متعلق رائے جاننے کے لیے امریکی اور پاکستانی ماہرین سے بات کی۔
پاکستان کے سابق سفارت کار عبدالباسط نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا حالیہ دورہ نئی شروعات ہے ۔ ان کے بقول ہمیں ہر گز یہ توقع نہ تھی کہ یہ ایک تاریخی دورہ ہوگا جس میں پاکستان اور روس ایک دوسرے کے نہایت قریب آ جائیں گے۔
تاہم سابق سفارت کار نے وی او اے کے نمائندہ جلیل اختر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ جس طرح روس پر پابندیاں عائد ہورہی ہیں تو عین ممکن ہے کہ پاکستان اور روس کے تعلقات اس انداز میں آگے نہ بڑھ سکیں جس کی توقع کی جارہی تھی۔ لیکن امید ہے کہ اس دورے سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بہتری آئے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
دورے کی ٹائمنگ کے حوالے سے عبدالباسط کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے دورے پر جانے سے کسی ایک بلاک کا حصہ بننے کا تاثر ملنے والی بات غلط ہے کیونکہ یہ دورہ بہت پہلے سے طے کیا گیا تھا۔ یوکرین پر ایسے وقت میں حملہ ہوا جب وزیراعظم وہاں تھے، لیکن اس سے کسی ایک بلاک میں جانے کا تاثر درست نہیں ہے۔
انہوں نےنوٹ کیا کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ اگر پاکستان روس کے قریب ہوگا تو امریکہ سے تعلقات ختم ہوجائیں گے ۔ ان کے بقول اس دورے کو اس انداز سے نہیں دیکھنا چاہیے۔
"امریکہ میں دس لاکھ سے سے زائد پاکستانی مقیم ہیں۔ امریکہ نے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے اور پاکستانی برآمدات بڑی تعداد میں امریکہ جاتی ہیں۔ روس اور پاکستان کے درمیان بھی فوجی و دفاعی تربیت میں تعاون ہو رہا اور دفاعی معاملات میں پاکستان کے امریکہ اور روس دونوں کے ساتھ تعلقات موجود ہیں۔
"
سابق سفارت کار نے کہا کہ اگرچہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بظاہر سردمہری ہے، لیکن امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں بہتری آئے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
روس میں پاکستان کے سابق سفیر شاہدامین دورے کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے بتادیا کہ وہ کسی فریق کے طرف دار نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ روس کے صدرولادیمیر پوٹن یوکرین کے معاملے کی وجہ سے یقیناً مصروف تھے لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ان کی بات چیت تین گھنٹے تک جاری رہی۔
شاہد امین نے توقع ظاہر کی کہ پاکستان اور روس کے درمیان توانائی سمیت اہم شعبوں میں تعاون بڑھ سکتا ہے اور کراچی سے لاہور گیس پائپ لائن پراجیکٹ پر جلد پیش رفت ہو سکتی ہے۔
شاہد امین نے کہا کہ پوٹن سے ملاقات کے لیے حالیہ دنوں میں کئی راہنما آئے لیکن وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ان کی ملاقات میں خاصی گرمجوشی نظرآئی جو پاکستان کے لیے بہتر ہے۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹرسے منسلک جنوبی ایشیا کے امورکے ماہر مائیکل کوگلمین نے عمران خان کے روس کے دورے پر اپنی ایک ٹوئٹ میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان جو مشن لے کر روس گئے تھے، وہ مکمل ہو گیا ہے۔
’’ دورے کے خوف ناک نظام الاوقات کو دیکھتے ہوئے خیال تھا کہ (عمران خان کا) یہ دورہ بہت خراب ہو گا۔ لیکن روس سے محدود تصاویر کا آنا، نپے تلے بیانات، زبان کی لغزش کا نہ ہونا۔۔ ان ساری باتوں سے وہ لوگ خوش نہیں ہوں گے جو چاہتے تھے کہ عمران خان یہ دورہ ملتوی کر دیں (اور ایسا نہیں ہونا تھا) لیکن مشن مکمل ہو گیا۔‘‘
تاہم مائیکل کوگلمین اپنے ایک اور ٹوئٹ میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے ایک کالم میں یہ استدلال پیش کیا ہے کہ پاکستان ، بالخصوص بھارت اور ایشیا کے دیگر ممالک اس طرح کے تنازعات میں خود کو سفارتی مشکل میں دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے ایسے حالات میں ہو سکتا ہے کہ اقتصادی مواقع ہوں لیکن بڑے خطرات بھی ساتھ جڑے ہیں۔
الزبتھ تھریلکیلڈ، واشنگٹن کے تھنک ٹینک سٹمسن سنٹر میں جنوبی ایشیا کی ڈائیریکٹر ہیں۔
وائس آف امریکہ کی مونا کاظم شاہ سےایک روز قبل بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ،
’’ ۔۔۔ یوکرین میں جاری تمام پیش رفت کے باوجود دورے کا انتخاب کیا گیا ۔ وزیر اعظم پاکستان کا اس وقت روس جانا میرے خيال ميں پاکستان کی کوتاہ بینی ہے۔ میں يہ بھی سمجھتی ہوں کہ پاکستان اس لمحے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس کے ساتھ ایک ایسا تعلق قائم کرنا چاہتا ہے جس پر وہ پچھلے دس بارہ سالوں سے کام کر رہا ہے،"
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن ان کے الفاظ میں "صورت حال جتنی تیزی سے بدل رہی ہے، اگریوکرین پر بڑی سطح کا حملہ ہوتا ہے تو پاکستان خود کو ديوار سے لگا رہا ہے۔"
اپنے تجزیے کی وضاحت کرتے ہوئے الزبتھ تھریلکیڈ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ اس دورے کو "یقینی طور پر مغربی دارالحکومتوں، امریکہ اور یورپی یونین کے بلاکس میں تنقيدی نظر سے دیکھا جائے گا جو پاکستان کی معیشت کے ليے روس کے دورے سےکہیں زيادہ آگے کی بات ہے۔"
انہوں نے نوٹ کیا کہ یقیناً، پاکستان نے کہا ہے کہ وہ کسی ایک کیمپ میں محدود نہیں ہونا چاہتا۔ امریکہ اور چین کے درمیان، کہ وہ اپنے آپشن کھلے رکھنا چاہتا ہے۔
""لیکن یہ ایک ایسا قدم ہے جو میری نظر میں کچھ طریقوں سے حالیہ فیصلوں کے سبب اسے مزید مشکل بنا دے گا۔