پاکستان اور روس کے تعلقات بتدریج بہتر ہو رہے ہیں

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر عمران خان اور ولادی میر پوٹن سائیڈ لائن کے ایک ڈنر میں مصروف گفتگو ہیں۔

پاکستان اور روس کے درمیان سفارتی اور اقتصادی تعلقات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ حالیہ برسوں میں دونوں طرف برف پگھلتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اب پاکستان اور روس کے تعلقات میں نرمی اور گرمجوشی پیدا ہوتی محسوس ہو رہی ہے لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سویت یونین کے وقت کے دو بدترین حریفوں میں اعتماد سازی کے لئے کافی وقت درکار ہو گا۔

روس کے ایک 64 رکنی اعلیٰ سطحی وفد نے گزشتہ ہفتے پاکستان کا دورہ کیا اور پاک روس وزارتی کمیشن کے چھٹے اجلاس میں شرکت کی۔ پاکستان حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ روسی کمپنی پاکستان اسٹیل میں 1 ارب ڈالر تک سرمایہ کاری کر سکتی ہے، جب کہ روسی کمپنیاں توانائی کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری، اور کراچی لاہور گیس پائپ لائن کے 2.5 ارب ڈالر منصوبے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد سے روس پاکستان تعلقات سرد مہری کا شکار رہے ہیں، لیکن حالیہ کچھ عرصے سے ان تعلقات میں گرم جوشی دیکھنے میں آئی ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک اسٹڈیز کی سارہ اکرم کہتی ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے جسے دور کرنے کے لئے ایک عرصہ درکار ہو گا لیکن پاکستان گرم جوشی کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان اقتصادی تعلقات پر سارہ اکرم نے کہا کہ روسی کمپنیاں اب بھی بھارت کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ بھارت ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے لیکن مستقبل قریب میں روس کی بھارت سے دوری کو خارج از مکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ روسی صدر پوٹن اب دنیا کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے پاکستان ایک اہم ملک ہے۔ اور اس کی واحد وجہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت ہے۔ تجزیہ کار اور سابق سفارت کار آصف درانی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ملکوں کے تعلقات ساس بہو کا رشتہ نہیں ہوتا بلکہ مفادات پر منحصر ہوتے ہیں۔ پاکستان اور روس بھی ایک دوسرے کے اچھے پارٹنر بن سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خطے کی بدلتی صورت حال دونوں ممالک کو قریب لے آئی ہے۔ پاکستان نے اپنے آپ کو ایک باکس میں بند کیا ہوا تھا اور یہ ایک اچھی پیش رفت ہے کہ پاکستان نے اب روس کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات جتنے مضبوط ہوں گے، اتنے ہی دونوں کے مفادات مشترکہ ہوں گے۔ جب مفادات مشترکہ ہوں گے تو پھر دو طرفہ تعلقات کو تقویت ملے گی۔

دفاعی تعاون کے سوال پر آصف درانی نے کہا کہ دوطرفہ تعلقات کا انحصار دو ممالک کے درمیان سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور دفاعی تعاون پر ہوتا ہے لیکن سب سے اہم چیز اقتصادی تعاون ہوتا ہے۔ جب یہ پروان چڑھتا ہے تو پھر دونوں ممالک دفاعی تعاون کی طرف بڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا تاریخی طور پر پاکستان اور روس کے تعلقات میں کئی نشیب و فراز دیکھنے میں آتے ہیں۔ کبھی دونوں ملک اتنے قریب آئے کہ روس نے پاکستان کے صنعتی شہر کراچی میں سٹیل مل قائم کرنے میں بھرپور مالی اور تکنیکی مدد فراہم کی۔ جب کہ دوسری طرف افغانستان جنگ کے دوران اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان دوریاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں تھیں۔ لیکن اب خطے کی ایک طاقت چین بھی دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی خواہاں ہیں۔

ماضی میں نوازشریف اور پرویز مشرف ادوار میں بھی پاکستان اور روس کے تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کی جاتی رہیں، لیکن کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ 2011 میں پیپلزپارٹی کے دورہ حکومت میں صدر آصف علی زرداری نے جب ماسکو کا دورہ کیا تو تعلقات میں ایک نیا موڑ آیا اور اس کے بعد روسی وزیر خارجہ سرگی لاروف پاکستان کے دورے پر آئے۔

سابق آرمی چیف راحیل شریف نے جولائی 2015ء میں روس کا دورہ کیا، جو بہت کامیاب رہا اور روس پاکستان کو MI35 ہیلی کاپٹر دینے پر آمادہ ہو گیا۔ اسی دورے کے نتیجے میں ستمبر 2016ء میں پاک روس فوجی مشقیں استور کے علاقے رٹو اور چراٹ میں ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اعشاریہ سات ارب ڈالر کی لاگت سے کراچی سے لاہور گیس پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ بھی ہوا۔ تعلقات میں اس پیش رفت سے یہ اشارہ ملا کہ بھارت کے اعتراضات کے باوجود دونوں ممالک تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں۔

روس پاکستان تجارتی تنازعہ حل

روس اور پاکستان کے مابین چار دہائیوں پرانا تجارتی تنازع حل ہونے کے بعد روس کی پاکستان میں سرمایہ کاری کی راہ میں حائل روسی قوانین کی رکاوٹ بھی دور ہو گئی ہے۔

یہ معاملہ یوں ہے کہ 80 کی دہائی میں سویت یونین کی کمپنیاں پاکستان سے ٹیکسٹائل کی اشیاء درآمد کرتی تھیں۔ تجارتی عمل میں سہولت کے لیے سویت یونین نے نیشنل بینک آف پاکستان میں دو اکاؤنٹ کھولے تھے۔ اکنامک افیئرز ڈویژن نے ان اکاؤنٹس میں فنڈز جمع کرا رکھے تھے۔ سویت یونین کے انہدام کے بعد متعدد ایکسپورٹرز کو ان کی ادائیگیاں نہ ہوئی۔ پاکستانی کمپنیوں نے سویت یونین نہ پہچنے والی مصنوعات کی طویل سمندری فرائیٹ کی فیس ادائیگی کا دعویٰ کر دیا، جس پر ایکسپورٹرز اور پاکستانی کمپنیوں نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے نیشنل بینک کو روسی بینکوں کو 104.93 ملین ڈالر کی ادائیگی سے روک دیا۔

2015 میں دونوں ممالک نے اس معاملے کو تیسرے روس پاکستان انٹر گورنمنٹل کمشن کے اجلاس کے دوران اٹھایا۔ دونوں حکومتیں اس پر راضی ہو گئیں کہ معاہدے کے دستخط ہونے کے 90 دن کے اندر پاکستان روس کو 93.5 ملین ڈالر کی ادائیگی کرے گا۔

اس دوران سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین نے اکتوبر 2016 میں اس معاملے کو متعلقہ کمپنیوں کے ساتھ اٹھایا، تاہم یہ کمپنیاں سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواستوں سے دستبردار نہ ہوئیں جس سے یہ معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ تاہم 2017 میں تابانی گروپ، مرکری گروپ، اے بی ایس گروپ اور فتح انڈسٹریز/فتح سپورٹس اور فتح جینز حکومت کے ساتھ معاہدے کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 4 اکتوبر 2019 کو سندھ ہائی کورٹ نے کیس کو نمٹا دیا کیونکہ درخواست گزار کمپنیاں حکومت کے ساتھ معاہدہ کر چکی تھیں۔

عدالت سے کیس ختم ہونے کے بعد اب پاکستان روس کے ساتھ باقاعدہ طے شدہ معاہدہ پر دستخط کرے گا۔ پاکستان کی جانب سے ماسکو میں پاکستان کے سفیر روس کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل دیں گے۔ معاہدے کی رو سے پاکستان روس کو 93.5 ملین ڈالر 90 دن میں ادا کرے گا اور کمپنیوں کو 23.8 ملین ڈالر کی رقم ملے گی۔

اس معاہدے کے بعد روس کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کے دورازے کھل سکیں گے۔

پاکستان اور روس مختلف فورمز پر

وسط ایشیائی ریاست کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں رواں سال جون میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کی خبروں اور خصوصاً تصاویر نے نئی بحث کو جنم دیا۔ اجلاس میں عمران خان اور پوٹن کے ایک ساتھ ساتھ بیٹھنے، ایس سی او سربراہان کے ساتھ بننے والی الوداعی تصویر میں شانہ بشانہ کھڑے ہونے کو پاکستانی اور روسی اخبارات اور ٹی وی چینلوں سے زیادہ سوشل میڈیا پر زیر بحث لایا گیا۔

پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اور روس کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم ساڑھے سات سو سے آٹھ سو ملین ڈالر کے قریب ہے، جسے دونوں ممالک نے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ چند روز قبل روسی ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرنس میں پاکستان کے وزیر اقتصادی امور حماد اظہر نے کہا ہے کہ پاک روس تجارت کے فروغ سے دوطرفہ تعلقات مضبوط ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن کی رکنیت کے لئے روس کے تعاون کے شکرگزار ہیں۔

وفود کے تبادلے میں اضافے سے دوطرفہ تعلقات مضبوط ہوں گے۔ امید ہے گیس پائپ لائن منصوبے پر پیش رفت تیز ہو گی۔ پاکستان اور روس کے درمیان باہمی تعاون کے تعلقات ہیں۔

اس موقع پر روسی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ گیس پائپ لائن، ہوائی جہاز سازی، ریلوے اور آٹو سیکٹر میں تعاون بڑھانا چاہتے ہیں۔ روسی وزیر نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان اسٹیل کی بحالی اور پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لئے تعاون کریں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی رضامندی کے بعد روس کے سی پیک میں شمولیت کے امکانات بھی پیدا ہو گئے ہیں، جس سے روس کو معاشی طور پر کافی فائدہ پہنچے گا۔ اسی طرح روس کراچی سے لاہور کے درمیان دس ارب ڈالر مالیت کی گیس پائپ لائن بچھانے میں پاکستان کو مالی مدد فراہم کرے گا۔

پاکستان اور روس کے درمیان کے حالیہ دنوں میں ہونے والے روابط سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب ہونا چاہتے ہیں اور آئندہ سال وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس کا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے۔